عمران خان کیخلاف توشہ خانہ ریفرنس: ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کا بیان قلمبند

Published On 22 November,2022 01:35 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) توشہ خانہ ریفرنس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کیخلاف فوجداری کارروائی میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کا بیان قلمبند کر لیا گیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کی، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر وقاص ملک عدالت میں پیش ہوئے اور بیان حلفی جمع کرا دیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اتھارٹی دی گئی ہے 21 نومبر کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی پیروی کروں، الیکشن ایکٹ کی سیکشن 190 کو 167 اور 173 کے ساتھ ملا کر کارروائی کی اتھارٹی دی گئی، یہ کارروائی عمران خان کے کرپٹ پریکٹیسسز سے متعلق ہیں، الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ وہ ریفرنس کی بنیاد پر ممبر اسمبلی کے نااہلی معاملے کو دیکھ سکتا ہے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کا بیان قلمبند ہونے کے بعد سماعت 8 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔

توشہ خانہ کیس: الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نا اہل قرار دے دیا

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے 4 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عمران خان کرپٹ پریکٹسز میں ملوث رہے، ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔

فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا کہ عمران خان رکن قومی اسمبلی نہیں رہے،ان کی نشست خالی قرار دی جاتی ہے۔

توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سنائے جانے کے سلسلے میں وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

پی ٹی آئی کارکنوں کے ممکنہ احتجاج کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا تھا۔

فیصلے سے قبل پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری، اسد عمرالیکشن کمیشن کی دیوار پھلانگ کے اندر داخل ہوئے۔

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم کی نااہلی کے لیے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا، جس پر 19ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن میں سیکیورٹی انتظامات کے پیشِ نظر رینجرز، ایف سی اور پولیس اہلکار بڑی تعداد میں تعینات کیے گئے اور اسلام آباد انتظامیہ نے آنسو گیس کے شیلز بھی الیکشن کمیشن پہنچائے گئے۔
قبل ازیں الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا اور چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے دیگر تمام ارکان بھی اجلاس میں پہنچے تھے جہاں انہیں سیکیورٹی سے متعلق امور اور انتظامات پر انتظامیہ کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن کی سکیورٹی سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، ایک ایس ایس پی، 5 ایس پیز، 6 ڈی ایس پیز سمیت 1100 سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو الیکشن کمیشن تک پہنچنے نہیں دیا جائے گا۔

واضح رہے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک آڈیو پیغام میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر پرویز خٹک نے پارٹی کارکنوں سے کہا کہ وہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ خلاف آنے پر سڑکوں پر نکلیں اور تمام اضلاع میں احتجاج کریں۔

ادھر فواد چودھری نے کہا کہ اسلام آباد اس وقت ایسے قلعے کا منظر پیش کر رہا ہے جو بڑی فوج کے محاصرے میں ہو، ابھی تو جنگ کا آغاز ہوا ہے ابھی سے گھبرا گئے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ معاملات کو ایسے مقام پر نہ لے جائیں جہاں سے واپسی کا راستہ نہ ہو۔

دوسری جانب سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی بنیادوں پر فیصلہ دیا تو حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔

الیکشن کمیشن نے سابق وزیر اعظم اور درخواست گزاروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کے خلاف دائر توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ جمعہ (21 اکتوبر 2022) کو دوپہر 2 بجے سنایا جائے گا۔

پی ٹی آئی چیئرمین اور دیگر فریقین کو جاری نوٹس میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں مقرر سماعت میں ذاتی طور پر یا وکیل کے ذریعے مذکورہ وقت پر پیش ہوں۔
یاد رہے کہ کل ہی الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کیس کے فیصلے کے موقع پر ہنگامی بنیاد پر فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے بھی خط لکھا تھا۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد کے نام خط میں کہا گیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں سماعت کے دوران کمیشن کے اندر اور اطراف میں فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے جو 21 اکتوبر 2022 کو صبح 10 بجے شروع ہوگی۔

آئی جی کے نام خط میں بتایا گیا تھا کہ درخواست گزار اور مدعا علیہان کو نوٹسز جاری کردیے گئے ہیں اور اس دوران کسی قسم کے ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پورے دن الیکشن کمیشن کی عمارت کے اندر اور باہر سادہ لباس میں 2 اہلکاروں اور ایک ٹریفک وارڈن سمیت فول پروف سکیورٹی فراہم کی جائے۔

خط میں واضح کیا گیا تھا کہ اس معاملے کو انتہائی ہنگامی بنیاد پر لیا جائے۔

الیکشن کمیشن نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دائر توشہ خانہ ریفرنس پر فیصلہ 19ستمبر کو محفوظ کیا تھا۔

سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحٰق نے مؤقف اپنایا تھا کہ ریفرنس میں سوال عمران خان کی جانب سے تحائف ظاہر نہ کرنے کا تھا اور عمران خان نے جواب میں تحائف کا حصول تسلیم کیا ہے اور یہ بھی تسلیم کیا کہ تحائف گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

واضح رہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
 

Advertisement