24 جنوری:تعلیم کا عالمی دن

Published On 24 January,2023 08:40 pm

لاہور: (شاہان شاہد)دنیا میں 24 کروڑ 40 لاکھ بچے سکول نہیں جا تے جن میں سے 14 کروڑ 64لاکھ بچے ایسے ہیں جو با لکل پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔

ہر سال 24 جنوری کو دنیا بھر میں تعلیم کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ہر ملک اور نسل سے منسلک تمام انسانوں کے لیے مساوی اور معیاری تعلیم مہیا کرنا اور تعلیم کے بارے آگہی پھیلانا ہے۔ پاکستان میں یونیسیف کی طرف سے نمائندہ ایدا گرما میلاکو نے12 اپریل 2018 میں وزیرِ خارجہ خواجہ آصف سے ملاقات میں اپنی دستاویزات پیش کیں ۔جس کے بعد پاکستان میں یہ دن پہلی مرتبہ 24 جنوری 2019 کو منایا گیا۔سسٹین ایبل ڈیویلوپمنٹ گول(SDG 4) کے ایک ایجینڈے کے مطابق 2015 میں تعلیم کے اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی۔SDG 4 کا مقصد یہ تھا کہ پوری دنیا میں تعلیم کی مساوی فراہمی کے ذریعے تعلیم کا حق ہر انسان کو دیا جائے گا۔ 2018 میں اس قرارداد کے مقاصد پیش کیے گئے اور 2018 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے "دی انٹر نیشنل ڈے آف ایجوکیشن " بطور قرارداد پیش کیا جسے بعد ازاں ایک عالمی دن کے طور پر مقرر کر دیا گیا۔
یونیسکو انسٹیٹیوٹ آف سٹیٹسٹکس نے کو گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ (GEMR)بنا کر اقوامِ متحدہ کو پیش کی جس کے مطابق دنیا میں 24 کروڑ 40 لاکھ بچے بلکل سکول نہیں جا تے اور جن میں سے 14 کروڑ 64 لاکھ بچے ایسے ہیں جو بلکل پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔ جن کو مدِ نظر رکھتے ہوئےیونیسیف کامؤقف سامنے آیا کہ اگر تعلیم یافتہ لوگوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ نہ کیا گیا تو تمام ممالک SDG 4کے مقاصد کو پورا نہ کر سکیں گے۔ 2030تک بھی پوری دنیا میں 10 میں سے 6 بچے ہی میٹرک تک کی تعلیم حاصل کر پائیں گے۔
خواندگی کی شرح کو بڑھانے میں پاکستانی حکومت پچھلے کچھ سالوں سے سنجیدہ نظر آئی اور2002 سے لیکر اب تک پورے پاکستان بشمول آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں نوجوانوں کے لیے 1لاکھ 70 ہزار 190سے زائد تعلیمی مراکز قائم کیے گئےہیں جن کے ذریعے اب تک 39 لاکھ 80 ہزار نوجوانوں (زیادہ تر خواتین )کو بنیادی تعلیم اور حساب کتاب کا ہنر دیا جا چکا ہے ۔اس کے علاوہ تقریباً 2 کروڑ 20 ہزار طلباء کے لیے سکول جانا اب پہلے سے آسان ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی شرح خواندگی میں گزشتہ تین سالوں کے مقابلے میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔لیکن اب بھی ملک میں مالی وسائل پورے نہ ہونے کے سبب غریبوں کے لیے تعلیم کا حصول نا ممکن ہے۔ مہنگائی کی باعث بچوں کی فیسوں اور تعلیم کے دیگر اخراجات اٹھانا ان کے لیے نہایت مشکل ہے۔ اس کے علاوہ غریب والدین بچوں کو سکول میں بھیجنے کی بجائے انہیں پیسوں کے لیے محنت مزدوری پر بھیجنے کوترجیح دیتے ہیں۔ اگر حکومت نے دیہاتوں میں غریبوں کے لیے خصوصی مراعات یا وضائف طے کیے بھی ہیں تو ضلع اور تحصیل کی سطح پر بدعنوانی ہونے کے باعث وہ وضائف عام غریبوں تک پہنچنا نا ممکن نہیں۔ جبکہ جامعات میں طالبِ علموں کے لیے پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ اور ایچ ای سی جیسے وضائف نے ہزاروں غریب طالبِ علموں کے لیے تعلیم کا خواب ممکن بناتی ہے۔ مگر اب بھی دیہاتوں میں ان وضائف کے متعلق آگاہی کی اشد ضرورت ہے تا کہ غریبوں کےلیے بھی مساوی تعلیم کی فراہمی کو ممکن بنا یا کا سکے۔
اکنامک سروے 2022 کے مطابق پاکستان میں کل شرحِ خواندگی62.8فیصد ، دیہاتی علاقوں میں 54 فیصد جبکہ شہری علاقہ جات میں77.3 فیصد ہے۔ جس سے مراد ہے کہ پاکستان میں 6 کروڑ سے زائد ایسے افراد ہیں جو دیکھ کر پڑھنے تک سے قاصر ہیں۔اگر صوبوں کے اعتبار سے بات کی جائے تو پنجاب کی شرحِ خواندگی 66.3 فیصد ، سندھ کی 61.8فیصد، خیبر پختونخوا کی 55.1فیصد اور بلوچستان کی 54.5فیصد ہے۔ صوبائی اعتبار سے پاکستان میں موجودہ مردوں اور عورتوں دونوں کی شرح خواندگی میں 58 سے 70 فیصد بہتری آئی ہے ۔ اور نئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مردوں کی شرح خواندگی 73 فیصد ہے اور عورتوں میں.5 51 فیصد ہے۔ لیبر فورس سروے2018 اور 2019 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی شرحِ خواندگی 62.4 فیصد رہی جبکہ 2020اور 2021 کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی 0.4فیصد کے اضافے کے ساتھ 62.8 فیصد تھی۔مگر یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں2 کروڑ 28 لاکھ بچے (جن کی عمر 5 سے 16 سال کے درمیان ہے)اب بھی سکولوں سے باہر ہیں۔ جبکہ بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں جنسی ، سماجی و معاشی حالات اور جیوگرافیائی مسائل کی وجہ سے سندھ میں 58 فیصد اور بلوچستان میں 78 فیصد لڑکیاں سکول نہیں جاتیں۔یورپ سمیت مغرب کے تمام ممالک عورت کی تعلیم کی اہمیت جانتے ہیں جب کہ برِ صغیر میں بھارت ، بنگلادیش جیسے ممالک میں بھی عورت اب کسی شعبے میں مرد سے کمتر نہیں۔ پاکستان کے شہروں میں اس مسٗلے کو لیکر بہتری آئی ہے لیکن دیہاتوں میں اب بھی خواتین کی تعلیم کا مسئلہ اپنی جگہ قائم ہے کیوں کہ اب تک عورت کی تعلیم کو بے بنیاد ڈھکوسلوں کی بنا پر غیر ضروری اور غیر مناسب سمجھا جاتا ہے۔ اگر عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کا مکمل موقع فراہم کیا جائے تو ہر عورت ماں کی صورٹ میں دنیا کے جدید تقاضوں کے مطابق ایک نئی نسل تیار کر سکنے کی اہل ہوجائے گی ۔ مزید براں جب یہی تعلیم یافتہ عورتیں ملک کے مختلف اداروں میں اپنی خوبیوں اور اہلیت کا اظہار کریں گی تو ملک کی معاشی صورتحال پر بھی مثبت اثرات آئیں گے۔ اس کی بدولت پاکستان سماجی اور انسانی ترقی کے ساتھ ساتھ صنفی مساوات بھی حاصل کر لے گا۔اقوامِ متحدہ کی تنظیم یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے کے مطابق "آج کے دور میں زندگی کے تمام مسائل بشمول صنفی مساوات اور غربت کا بنیادی حل کاروباری ترقی کی بجائے دنیا بھر میں تعلیم کی مساوی فراہمی ہے جسے صرف مساوی ڈیجیٹل تبدیلی کے ذریعے ہی حا صل کیا جا سکتا ہے"۔ تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا حق، معاشرے کی بہتری اور عوام کی ذمے داری ہے۔تعلیم کی شرح کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہی ممکنہ بہترین حد تک لے جایا جا سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ صرف تعلیم کی فراہمی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک جیسی معیاری تعلیم کی فراہمی کا ہے۔ پاکستان کے آئین کی شق A 25 کے تحت بنیادی تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔ایڈ ٹیک کے بانی اور چیئرمین منان خرما کا بھی یہی کہنا ہے کہ "اقوامِ متحدہ کے مطابق تعلیم کے عالمی دن کے منشور کو دوبارا سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب ممالک میں ٹیکنالوجی اور انٹڑنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے تا کہ وہ سہولیات جن کی مادیاتی مسائل کی وجہ سے فراہمی ممکن نہ بن سکی اب آن لائن نظام کے آسان طریقوں سے یقینی بنائی جا سکے۔ کیونکہ دنیا میں وہ24 کروڑ40 لاکھ بچے جو سکولوں سے باہر ہیں انہیں ٹیکنالوجی کے بغیر تعلیم یافتہ بنانا ممکن نہیں"۔ اسی سلسلہ میں پاکستان نے بھی ای لرننگ کے منصوبے کو لانچ کیا گیا جس کے مطابق کرونا کے سنگین حالات میں آن لائن تعلیم کی فراہمی ممکن بنائی گئی۔ حکومتِ پاکستان نے پہلی جماعت سے لیکر دسویں جماعت تک تمام مضامین کے لیکچرزمعیاری اساتذہ سے ریکارڈ کروا کر اپنی بلامعاوضہ ویبسائٹس پر بھجوائے تا کہ عام عوام ان سے مفید ہو سکے۔
9 جنوری 2023 کو صوبہ پنجاب کی جانب سے امریکی اسٹیٹ کیلیفورنیا کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا جس کے مطابق کیلیفورنیا اور پنجاب دو سسٹر پروونسز ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد دونوں صوبوں کے مابین تجارت، ثقافت، ماحول کے ساتھ ساتھ تعلیم کو فروغ دینا ہے۔ ایک پاکستانی وفد کو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس کا دورہ بھی کروایا گیا اور یونیورسٹی آف اگریکلچر فیصل آباد سے معاہدہ بھی کروایا گیا تاکہ پاکستان بھی ان کی تحقیقاتی ٹیم کے ساتھ ملکر اپنے زراعت اور ویٹرنری کے شعبے میں تحقیق کا کام بہتر بنا سکے۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کا مسئلہ تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک جیسی معیاری تعلیم کی فراہمی کاہے۔ پاکستان میں ہا ئیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی طرف سے 1 لاکھ طلباء و طالبات کو پی ایم لیپ ٹاپ سکیم کے تحت لیپ ٹاپس دیے جانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ دنیا کے معیاری تعلیمی اداروں مثلاً آکسفورڈ اور کیمبریج وغیرہ سے دنیا بھر کے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کو خصوصی مراعات پر اسکالرشپس دیے جاتے ہیں جن میں پاکستان سے بھی سینکڑوں طالبِ علم ہر سال بلامعاوضہ نامور اداروں میں تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں۔ ان پراگراموں سے ملک کے نوجوانوں کے لیے ایسے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں جن سے انہیں دنیا کے جدید تقاضوں کے متعلق بنیادی تعلیم دی جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ یونیسیف سے مزید ایسے پراگرام ملک میں متعارف کروائے تا کہ پاکستان کے نوجوان بھی زیادہ سے زیادہ معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔ 24 جنوری کے دن کے متعلق پاکستان میں زیادہ سے زیادہ آگہی پھیلانے کی ضرورت ہےتا کہ پاکستان میں عوام کا رجحان تعلیم کی طرف لایا جا سکے۔
 

Advertisement