لاہور:(اسماء رفیع ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے الحمرا آرٹس کونسل میں جاری تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023 اپنی تمام تررنگینیوں کے ساتھ اختتام پذیرہوگیا۔
10 فروری سے شروع ہونیوالے پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے آخری روز مختلف ادبی سیشن اورکتابوں کی رونمائی بھی ہوئی ، جس میں ملک کے نامورفنکاروں ادیبوں سمیت اہم شخصیات نے شرکت کی ۔
تیسرے روز کا آغاز نئی شاعری نئے امکانات سیشن سے کیا گیا ، جس میں یاسمین حمید، نجیب جمال، فاطمہ حسن، جواز جعفری اور اورنگزیب نیازی نے موضوع سے متعلق گفتگو کی گئی ۔
سیشن Pakistans Deep Air Quality Crisis: Next setup & Imperatives کے موضوع پر آمنہ قادر، احمد علی گل، احمد رافع عالم اور محمد خرم بھٹی نے روشنی ڈالی جبکہ نظامت کے فرائض اُسامہ قادری نے انجام دئیے ۔
فیسٹیول کے چوتھے سیشن میں کتابوں کی رونمائی کی گئی جس میں احمد سلیم کی کتاب میری دھرتی میرے لوگ ، فتح محمد ملک کی کتاب سوانح عمری، عرفان جاوید کی کتاب آدمی ، شاہد صدیقی کی کتاب پوٹھوہار، خطہ دل ربا شامل ہیں ، اس سیشن کی نظامت کے فرائض ضیاءالحسن نے انجام دئیے۔
معروف بیوروکریٹ فواد حسن فواد کی کتاب کنج قفس کی تقریب رونمائی میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق اور سردار ایاز صادق سمیت نامور شخصیات نے شرکت کی۔
معروف ادیب افتخار عارف کی کتاب "سخن افتخار" کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں عباس تابش، ناصر عباس اور خورشید رضوی نے ان کے اندازسخن اور مزاحمتی شاعری پر اظہار خیال کیا ۔
سیشن سرائیکی زبان و ادب، امکانات ورجحانات کا انعقاد کیاگیا جس میں حفیظ خان، ارشاد امین اور محمد مصطفی نے اظہارِ خیال کیا، نظامت کے فرائض شاکر حسین شاکر نے انجام دئیے ۔
فیسٹیول کے اخری روز معروف شاعر امجد اسلام امجد کی یاد میں تعزیتی ریفرنس بھی پیش کیا گیا اور انہیں احمد شاہ ، افتخار عارف ، غازی صلاح الدین، کشورناہید سمیت دیگرشخصیات نے خراج عقیدت پیش کیا ۔
معروف شاعر افتخار عارف نے امجد اسلام امجد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کے معاشرے میں چالیس سال تک ادب کے ساتھ جڑے رہنا بہت مشکل کام ہے لیکن امجد اسلام امجد نے یہ مشکل کام کیا، کوئی ایسی محفل نہیں تھی جہاں انہیں اہمیت نہ دی جاتی تھی ، انہوں نے ترجموں پربے حد کام کیا اور شاعر ،ڈرامہ نویس کی حیثیت سے تو سبھی انہیں جاتے ہیں لیکن کلاسیکل اردو لٹریچر کیلئے بھی انہوں نے بہترین کام کیا ۔
افتخارعارف نے کہا کہ بہت سارے شاعر ادیب درباری ہوتے ہیں لیکن امجد اسلام امجد کو کبھی ایسا نہیں دیکھا، نوجوان نسل کو اس کی کتاب ’نئے پرانے چراغ‘ ضرور پڑھنا چاہیے ، بلاشبہ 70 کی دہائی کے شعراء میں ان کا شمار مقبول ترین اور معتبر شعراء میں کیاجائے گا۔
کشور ناہید کا کہنا تھا کہ امجد اسلام امجد مجھ سے چار سال چھوٹا تھا لیکن کبھی کبھی بڑا ہونے کا احساس دلاتا تھا، وہ شاعر کے ساتھ مصنف بھی بہت تھا میں اس کو کہتی تھی امجد مشاعرے چھوڑ دو، وہ کہتا تھا لوگ نہیں چھوڑتے، درحقیقت واقعی لوگ اس سے بے حد پیار کرتے تھے۔
اصغر ندیم سید نے اس موقع پر کہا کہ چند دن پہلے ملاقات ہوئی تو وہ بجھے ہوئے تھے ، انہوں نے ایک بھر پور زندگی گزاری، ان کی کتابوں کے دیگر زبانوں میں ترجمے شائع ہوئے، چار سال کی مشقت کے بعد وارث جیسا شاہکار ڈرامہ تخلیق کیا ، امجد اسلام امجد کا تعلق دیہات سے نہیں تھا لیکن ’وارث‘ میں دیہات کی بہترین منظر کشی کی ، اس ایک ڈرامے نے ایک رات میں 13 فنکاروں کو سپر سٹار بنا دیا ، یہ ان کی تحریر کا کمال تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ امجد اسلام امجد کو شاعری سے عشق تھا اور شاعری نے بھی ان سے عشق کیا ، وہ ہمارے قریب ہیں اور قریب رہیں گے ۔
پروفیسر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ یہ دکھ کی گھڑی ہے اور یہ دکھ اب معلوم نہیں کب تک ساتھ چلے گا، امجد ہمارے عہد کے بڑے ناموں میں شامل ہے، محبت کے شاعر امجد کو ہم یاد کرتے رہیں گے، انہوں نے عالمگیرسطح پر اردو ادب کیلئے بہت کام کیا ۔
معروف شاعرہ عنبرین حسیب امجد اسلام امجد کے ساتھ 2009 کے بھارت کے دورے کا حوالہ دیتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں ، انہوں نے کہا کہ انہیں ہم ہر دن یاد کرینگے ، میں پروگرام تو روز کرتی ہوں لیکن امجد اسلام امجد کے لیے یہ پروگرام کرنا بہت مشکل ہے۔
فیسٹیول کی اختتامی تقریب میں معروف شاعرہ کشور ناہید ، ناہید صدیقی اور معروف ماہر تعمیرات نیر علی دادا کو کراچی آرٹس کونسل لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔
اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے کہا کہ جب کسی ملک کی ثفافتی پہچان ختم ہوجائے تو وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں ، اس فیسٹیول کے ذریعے نوجوان نسل کو آپس میں جوڑ رہے ہیں ، انہیں امید نہیں تھی کہ اتنی پذیرائی ملے گی اور وہ لاہوریوں کے شکر گزار ہیں ۔
احمد شاہ کا کہنا تھا کہ مزید 12 شہروں میں فیسسٹیول کا انعقاد کیا جائے گا جن میں لاہور کے بعد اب گوادر، مظفر آباد، گلگت، پشاور، اسلام آباد اور کراچی جائیں گے ، اس کے بعد امریکہ کے چار مختلف شہروں ہیوسٹن، نیو یارک، شکاگو سلیکان ویلی، ڈیلس اور ٹورنٹو میں بھی پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا جائے گا۔
سیشن انور مقصود کا پاکستان میں دانشور انورمقصود نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 75 برسوں سے جو غریب ہے وہ آج بھی غریب ہے اور تعلیم اور بنیادی سہولیات سے محروم ہے ، اس کی خوش قسمتی تب جاگتی ہے جب اگر غلطی سے الیکشن آجائیں تو ووٹ ڈالنا فرض ہے ۔
انہوں نے کہا کہ برسوں سے لوگ یہاں تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں، دادا ، باپ اور بیٹا کئی برسوں سے تخت پر ہیں ، ایسا نہیں ہونا چاہئے ، بہترین لوگ یقین سے محروم ہیں اور بدترین لوگ پرجوش اور بدتمیز ہیں ۔
انہوں نے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج امیر اس لیے پریشان ہے کہ ڈالر مہنگا ہے اور غریب اس لیے کہ روٹی نہیں ہے، انہوں نے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین نہیں تھا کہ فیسٹیول میں اتنے زیادہ نوجوان آئیں گے ، پاکستان کے نوجوانوں کا مستقبل روشن ہے ، اس سسٹم کو صرف ملک کے نوجوان بدل سکتےہیں ۔
آخری روز صدارتی تمغہ ایوارڈ یافتہ پاکستان کی نامور کلاسیکل رقاصہ ناہید صدیقی نے اپنی خوبصورت پرفارمنس سے ناظرین کے دل موہ لیے۔
فیسٹیول میں میوزیکل پروگرام میں نامور گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ، معروف گلوکارہ نتاشہ بیگ ، گلوکار عاصم اظہراور ساحر علی بگا کی شاندار پرفارمنس پر نوجوانوں کی بڑی تعداد نے تالیاں بجا کر داد دی جبکہ فیسٹول کے دوران کتابوں کے سٹالز اور چٹ پٹے کھانے بھی شہریوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ۔
پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، ان کا کہنا تھا کہ ادب اور ثقافت سے شناسائی سب کیلئے بے حد ضروری ہے اور انہیں بہت کم تفریح کے مواقع میسر آتے ہیں لہذا ایسے ایونٹس کا انعقاد تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہئیے ۔