شب معراج: فرش زمیں سے عرش بریں تک کا سفر

Published On 18 February,2023 11:03 am

لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) اللہ تعالیٰ کی سُنت جاریہ یہ ہے کہ اس نے ہر زمانہ کے اِنسانی کمالات کے مطابق انبیاء و رُسل کو معجزات دے کر مبعوث فرمایا، یہ معجزات انسانی عقل و علم کو عاجز کر کے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور انبیاء و رُسل کی حقانیت کی دلیل بنے۔

جیسا کہ حضرت موسیٰؑ کے زمانہ میں جادوگری عروج پر تھی، تو آپؑ کو عصا اور ید بیضا عطا کیا گیا، حضرت داؤدؑ کے دور میں لوہے کی صنعت عروج پر تھی تو آپؑ کیلئے لوہے کو مسخر کر دیا گیا، حضرت سلیمانؑ کا دور اقدس جنات کی طاقت کا مظہر تھا تو آپؑ کیلئے ہواؤں، چرند پرند کو مسخر کر دیا گیا، حضرت عیسیٰؑ کے دور میں طبّ عروج پر تھی تو آپؑ کو لا علاج بیماریوں حتیٰ کہ مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا گیا۔

حضور نبی اکرمﷺ کا زمانہ نبوت چونکہ قیامت تک جاری و ساری ہے اور یہ سائنسی عروج کا زمانہ ہے، جس میں انسان چاند و مریخ پر پہنچ چکا ہے، اس لئے آپﷺ کو معجزہ معراج عطا کیا گیا، جس میں سفر کی تمام مسافتوں کو تمام زمینوں، آسمانوں اور عرش سے لامکاں تک کی مسافت کو رات کے قلیل حصہ میں طے کر کے دکھایا گیا ہے، اس طرح یہ معجزہ سب سے ارفع و اعلیٰ ہے، اس کی ایک شان یہ بھی ہے کہ اس سفر میں خالق کائنات نے اپنے حبیب مکرمﷺ کو اپنا دیدار بلا حجاب عطا فرمایا ہے جو کہ صرف آپﷺ کا ہی خاصہ ہے، کسی اور نبی و رسول کو یہ نعمت عظمیٰ نہیں ملی۔

پس منظر:خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی دعوت اسلام کے جواب میں اعلان نبوت کے ساتویں سال سے دسویں سال تک قریشِ مکہ نے آپﷺ کے خاندان بنو ہاشم کا معاشرتی و معاشی بائیکاٹ کیا، یہ تینوں سال آقا کریم ﷺ اور مسلمانوں کیلئے بڑے کٹھن اور دشوار تھے، یہ بائیکاٹ خدائی تدبیر سے ختم ہوا تو اسی سال پہلے آپ ﷺ کے سب سے بڑے ہمدرد اور غمخوار تایا حضرت ابو طالبؓ کا وصال ہوا اور پھر ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دینے والی وفا شعار بیوی اُم المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کا انتقال ہو گیا، اس کے بعد آقا کریم ﷺ تبلیغ اسلام کیلئے وادی طائف تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ ﷺ کو شدید زخمی اور لہو لہان کیا، آپﷺ واپس مکہ تشریف لاتے ہیں تو اہل مکہ نے کسی کے امان دینے کی شرط رکھی، اسی شام آپ امان کے ساتھ اپنے ہی شہر میں داخل ہوئے اور رات اپنی تایا زاد ہمشیرہ حضرت اُمِ ہانیؓ کے گھر سوئے تو یہ مبارک سفر نصیب ہوا۔

آسمانی معراج کی انتہاء: بخاری شریف کی ایک روایت میں سدرۃ المنتہیٰ کے بعد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ایسا قرب مذکور ہے جسے ’’قابِ قوسین اوادنیٰ‘‘ سے تعبیر فرمایا گیا، حدیث شریف کے الفاظ ہیں ’’یعنی اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ سے قریب ہوا، پھر اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ سے یا حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے اس سے بھی زیادہ قرب طلب فرمایا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ سے دو کمانوں کی مقدار یا اس سے بھی زیادہ قریب ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کا جمال مبارک سر اقدس کی آنکھوں سے دیکھا (فتح الباری، ج13، ص417)

اسراء، معراج اور اعراج: حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی فرماتے ہیں (مسجد حرام سے) بیت المقدس تک اسراء ہے، وہاں سے آسمانوں تک معراج ہے اور آسمان سے مقام قاب قوسین تک اعراج ہے (ایضاً، ج1 ، ص118-119)

سفر معراج کا حکم: علامہ سید احمد سعید کاظمیؒ لکھتے ہیں: اسراء یعنی مسجد حرام سے بیت المقدس تک تشریف لے جانا قطعی اور یقینی ہے جس کا منکر مسلمان نہیں، زمین سے آسمان کی طرف معراج ہونا احادیث سے ثابت ہے اس کا منکر فاسق ہے۔ آسمانوں سے جنت کی طرف اور عرش یا لامکاں تک ثابت ہے، جس کا منکر گنہگار ہے۔ (مقالات کاظمی، ج1، ص 138)

قرآن و حدیث سے سفر معراج کی تفصیل: سفر معراج شریف کو قرآن مجید نے دو جگہ بیان کیا ہے، (1) سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ ذات ہر عیب سے پاک ہے جس نے اپنے عبد کریم (محمد ﷺ) کو رات کے مختصر سے حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کروائی (وہ مسجد اقصیٰ) جس کے ماحول کو ہم نے برکتیں دے رکھی ہیں (یہ سیر اس لئے کروائی) کہ ہم انہیں اپنی کچھ عظیم نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ خوب سننے اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ (2) سورۃ النجم کی پہلی اٹھارہ آیات میں اس کا اشارۃً بیان ہے۔

اس سفر مبارک کی تفصیلات و جزئیات کو اکثر کتب احادیث و سیرت میں بیان کیا گیا ہے، ہم اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف بخاری شریف کی ایک حدیث مبارکہ کے ترجمہ کو پیش کر رہے ہیں، حضرت انس بن مالکؓ حضرت مالک بن صعصعہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے اس رات کی کیفیت بیان فرمائی جس میں آپﷺ کو معراج ہوئی تھی، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’میں حطیم کعبہ میں تھا، یکایک میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ حلقوم شریف سے لے کر ناف مبارک تک چاک کیا۔

پھر اس نے میرا دل نکالا، پھر سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا ،اس کے بعد میرا دل دھویا گیا، پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہو گیا، اس قلب کو سینۂ اقدس میں اسی جگہ پر رکھا گیا، اس کے بعد میرے پاس ایک جانور سوار ہونے کیلئے لایا گیا جو خچر سے نیچا اور گدھے سے اونچا تھا، وہ اپنا قدم منتہائے نظر پر رکھتا تھا، میں اس پر سوار ہوا، پھر جبرائیلؑ مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ ہم آسمان پر پہنچے۔

مسلم شریف کی روایت میں آسمان پر جانے سے پہلے بیت المقدس تشریف لے جانے کا ذکر اس طرح وارد ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ: میں براق پر سوار ہو کر بیت المقدس آیا اور میں نے اپنی سواری کو اسی حلقے سے باندھ دیا جس میں انبیاء کرامؑ اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے، پھر میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا (مسلم شریف،ص 91)۔ مسلم شریف کی دوسری روایت میں ہے ’’پھر نماز کا وقت آگیا اور میں نے انبیاء کرامؑ کی امامت کی‘‘ (مسلم شریف،ص94)۔ مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے کہ ’’بیت المقدس شریف جاتے ہوئے میں حضرت موسیٰؑ کی قبر کے پاس سے گزرا تو وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔

پہلے آسمان پر پہنچ کر جبرائیلؑ نے آسمان کا دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا کون ہے؟ انہوں نے کہا جبرائیلؑ۔ پھر آسمان کے فرشتوں نے پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا محمد ﷺ، پوچھا گیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبرائیلؑ نے جواب دیا کہ ہاں۔ کہا گیا انہیں خوش آمدید ہو، ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے، دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو حضرت آدمؑ ملے۔ جبرائیلؑ نے کہا کہ یہ آپﷺ کے والد حضرت آدمؑ ہیں، آپﷺ انہیں سلام کیجئے! میں نے سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو صالح بیٹے اور صالح نبی کو۔

پھر ہم دوسرے آسمان پر پہنچے، وہاں حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ ملے، پھر جبرائیلؑ مجھے تیسرے آسمان پر لے گئے اور وہاں حضرت یوسفؑ ملے، چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑ ملے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارونؑ ملے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰؑ سے ملاقا ت ہوئی، جب میں آگے بڑھا تو وہ روئے، ان سے پوچھا گیا کہ آپؑ کیوں روتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا میں اس لئے روتا ہوں کہ میرے بعد ایک مقدس لڑکا مبعوث کیا گیا جس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ جنت میں داخل ہوں گے، پھر جبرائیلؑ مجھے ساتویں آسمان پر لے گئے۔ وہاں حضرت ابراہیمؑ ملے، جبرائیلؑ نے کہا یہ آپﷺ کے باپ حضرت ابراہیمؑ ہیں۔

پھر میں سدرۃ المنتہیٰ تک گیا، مقام سدرۃ المنتہیٰ پر جبرائیلؑ حضور ﷺ سے پیچھے رہ گئے اور آگے ساتھ جانے سے معذرت کر لی، عرض کیا کہ حضورﷺ اگر میں انگلی کے ایک پورے کے برابر بھی بڑھوں تو جل کر خاکستر ہو جاؤں گا لیکن حضور ﷺ سدرۃ المنتہیٰ سے گزر کر عرش سے بلند ہوگئے، جس سے ثابت ہوا کہ قوت نوریہ قوت ملکیہ سے بہت زیادہ قوی ہے (روح البیان، ج9، ص267)۔

سدرۃ المنتہیٰ پرچار نہریں تھیں، دو پوشیدہ اور دو ظاہری، میں نے پوچھا اے جبرائیلؑ یہ نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا ان میں جو پوشیدہ ہیں وہ تو جنت کی نہریں ہیں اور جو ظاہر ہیں وہ نیل و فرات ہیں، پھر بیت المعمور میرے سامنے ظاہر کیا گیا، اس کے بعد مجھے ایک برتن شراب کا، ایک دودھ کا اور ایک برتن شہد کا دیا گیا، میں نے دودھ کو لے لیا، جبرائیلؑ نے کہا یہی فطرت (دین اسلام) ہے، آپﷺ اور آپﷺ کی امت اس پر قائم رہیں گے۔

اس کے بعد مجھ پر ہر روز 50 نمازیں فرض کی گئیں، جب میں واپس لوٹا تو حضرت موسیٰؑ نے کہا آپ ﷺ کی امت 50 نمازیں روزانہ نہ پڑھ سکے گی، خدا کی قسم میں آپﷺ سے پہلے لوگوں کو تجربہ کر چکا ہوں لہٰذا آپﷺ اپنے رب کے پاس لوٹ جائیے اور اپنی امت کیلئے تخفیف کی درخواست کیجئے، چنانچہ میں لوٹا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے 10 نمازیں معاف کر دیں، پھر میں موسیٰؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر اسی طرح کہا، میں پھر خدا کے پاس واپس گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے دس نمازیں پھر معاف کر دیں۔

پھر حضرت موسیٰؑ کے پاس آیا انہوں نے پھر اسی طرح کہا، میں پھر خدا کے پاس واپس گیا تو مجھے ہر روز 5 نمازوں کا حکم دیا گیا، میں حضرت موسیٰؑ کے پاس لوٹ کرآیا تو انہوں نے پوچھا کہ آپﷺ کو کیا حکم ملا؟ میں نے کہا کہ روزانہ 5 نمازوں کا حکم ملا ہے، انہوں نے کہا کہ آپﷺ کی امت پانچ نمازیں بھی نہ پڑھ سکے گی لہٰذا آپ ﷺپھر اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے اور اپنی امت کیلئے تخفیف کی درخواست کیجئے۔

حضور ﷺنے فرمایا: میں نے اپنے رب تعالیٰ سے کئی مرتبہ درخواست کی، مجھے حیا آتی ہے، لہٰذا اب میں راضی ہوں اور اپنے رب کے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ (بخاری شریف، ج1، ص 548)

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 20 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ایچ ای سی سے منظور شدہ 25 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔