لاہور: (مولانا محمد الیاس گھمن) اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو مسجد حرام سے بیت المقدس اور وہاں سے عرش معلی تک کی سیر کرائی، پیش آنیوالے چند واقعات پیش ہیں۔
سفر اسراء و معراج کی ابتداء
ایک شب حضرت اُم ہانیؓ کے دولت کدے پر آپﷺ آرام فرما تھے کہ یکایک مکان کی چھت پھٹی، ملائکہ کے جھرمٹ میں جبرائیل امینؑ اترے اور آپﷺ کو نیم خوابی کے عالم سے بیداری کے عالم میں لائے۔ آپﷺ اپنے اسی جسم کے ساتھ یہاں سے مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے،وہاں سے جبرائیل ؑو میکائیلؑ آپ ﷺ کو زم زم کے کنویں کے قریب لے آئے، یہاں آپ ﷺ لیٹ گئے۔
شق صدر اور مہر ختم نبوت
آپ ﷺکے مبارک سینے کو شق کیا گیا اور قلب اطہر کو نکال کر زم زم سے دھویا گیا، سونے کے طشت کو لایا گیا جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ایمان و حکمت کو آپﷺ کے قلب مبارک میں بھر دیا گیا اورقلب اطہر کو دوبارہ اپنے مقام پر رکھ دیا گیا۔ دونوں کندھوں کے درمیان ختم نبوت کی مہر لگائی گئی۔ جبرائیل امین ؑکے ہمراہ بہشت سے ایک سفید رنگ کی سواری براق لائی گئی تھی جس کا ایک قدم منتہائے بصر تک پہنچتا ہے۔ اس پر سوار ہوئے اور جبرائیلؑ و میکائیلؑ آپ ﷺکے ہمرکاب تھے۔
وادی سینا، مدین اور بیت اللحم
آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ راستے میں میرا گزر ایک ایسی زمین پر سے ہوا جس میں کھجور کے درخت بکثرت تھے۔ جبرائیل امینؑ نے عرض کی کہ یہاں اتر کر دو رکعت نماز(نفل) پڑھ لیجیے، یہ یثرب (مدینہ منورہ) ہے، جہاں آپﷺ نے ہجرت کر کے آناہے۔آگے وادی سینا پہنچے، جبرائیل امینؑ نے عرض کیا یہاں بھی دو رکعت پڑھ لیجیے ، اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا۔ وہاں سے حضرت شعیب علیہ السلام کی بستی ’’مدین‘‘ پہنچے، جبرائیل امینؑ نے عرض کیادو رکعت پڑھ لیجیے، وہاں سے مقام بیت اللحم پہنچے، عرض کی حضورﷺیہاں بھی دو رکعت پڑھ لیجیے۔ وہاں سے چلے تو بیت المقدس پہنچے، جبرائیل امینؑ نے عرض کی حضور ﷺ یہاں بھی دو رکعت پڑھ لیجیے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر
آپ ﷺفرماتے ہیں جس رات مجھے معراج کرایا گیا، میں سرخ ٹیلے کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے قریب سے گزرا۔ موسیٰ علیہ السلام قبر میں کھڑے ہو کے نماز پڑھ رہے تھے۔ اس واقعے میں جو چیز بطور معجزہ ہے وہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنا ہے۔
غیبت کرنے والوں کا انجام بد
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا گیا کہ یہ وہ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے (غیبت کرتے )ہیں۔
سود خوروں کی سزا
آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا گزر ایسے لوگوں پرسے ہوا جن کے پیٹ اتنے بڑے تھے جیسے گھر ہوتے ہیں۔ ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔
نماز میں سستی کرنے والوں کا انجام
آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے۔ کچل جانے کے بعد پھر پہلے کی طرح ہوجاتے۔ یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہو رہا تھا۔ آپ ﷺنے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیلؑ نے کہا کہ یہ لوگ فرض نماز میں سُستی کرنیوالے ہیں۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا
آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے تھے اور اونٹ و بیل کی طرح کانٹے دار درخت اور جہنم کے پتھر کھارہے تھے،پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل ؑ نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔
زنا کرنے والوں کا انجام
آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت۔ یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھارہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھارہے ۔ آپ ﷺنے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل ؑنے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے ہیں۔ وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑکر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔
ڈاکہ ڈالنے والوں کی سزا
آپﷺنے اس سفر میں ایک لکڑی دیکھی جو گزرنے والوں کے کپڑوں کو پھاڑ ڈالتی ہے۔ اس کے بارے میں جبرائیل امینؑ نے بتایا کہ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو راستوں میں چھپ کر بیٹھتے ہیں اور ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
خیانت کرنے والوں کی سزا
آپ ﷺکا گزر ایسے شخص پر سے ہوا جس نے لکڑیوں کا بھاری گٹھا جمع کر رکھا ہے اور اس میں اُٹھانے کی ہمت نہیں۔ پوچھنے پر جبرائیل علیہ السلام نے بتایا یہ وہ شخص ہے جو صحیح طور پر امانت ادا نہیں کرتا۔
بے عمل عالم کی سزا
آپﷺ کا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کی زبانیں اور باچھیں لوہے کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں۔ جبرائیلؑ نے بتایا کہ یہ آپ ﷺکی اُمت کے بے عمل عالم ہیں۔
جنت و جہنم
آپﷺ کا گزر خوشبو والی جگہ سے ہوا جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ جنت ہے اور بدبو والی جگہ جہنم سے بھی گزر ہوا۔ابن عباسؓسے روایت ہے، آپﷺ نے دجال اور داروغہ جہنم کو بھی دیکھا۔
بوڑھے مرد و عورت اور جماعت انبیاء
آپﷺ کا گزر ایک بڑھیا پر سے ہوا، اس نے آپﷺ کو آواز دی۔ حضرت جبرائیل ؑنے عرض کی کہ آگے چلئے! پھر آپﷺ کا گزر ایک بوڑھے شخص پر سے ہوا، اس نے بھی آپ ﷺ کو آواز دی، جبرائیل ؑنے کہا آگے چلئے۔پھر ایک جماعت پر سے گزر ہوا جنہوں نے آپ ﷺ کو سلام کیا۔ جبرائیل امینؑ نے کہا کہ ان کے سلام کا جواب دیجیے۔ عرض کی کہ بوڑھی عورت دنیا اور بوڑھا مرد شیطان ہے، دونوں کا مقصد آپﷺ کو اپنی طرف مائل کرنا تھا۔جس جماعت نے آپ ﷺکو سلام کیا، وہ حضرت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام ہیں۔
ماشاطہ فرعون
آپﷺ کو خوشبو آئی،آپﷺنے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے؟ جبرائیل امینؑ نے کہا کہ یہ کنگھی کرنے والی(ماشاطہ)اور اس کی اولاد کی خوشبو ہے۔ پھر اس کا مکمل واقعہ سنایا کہ ایک عورت ماشاطہ فرعون اور اس کی اولاد کو کنگھی کیا کرتی تھی۔ ایک بارجب وہ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کر رہی تھی تواس کے ہاتھ سے کنگھی گر گئی۔
اس نے کہابسم اللہ۔ فرعون کی بیٹی نے کہا کہ میرے باپ کے بارے میں کہہ رہی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں بلکہ جو میرا اور تیرے باپ کا رب ہے یعنی اللہ رب العزت۔ فرعون کی بیٹی نے معاملہ اپنے باپ کے دربار تک پہنچا دیا۔ فرعون نے کہا کہ کیا تو میرے علاوہ کسی اور کو بھی رب مانتی ہے؟ اس عورت نے دلیری سے جواب دیا کہ ہاں جو میرا اور تیرا رب ہے۔ فرعون نے طیش میں آ کر ایک بڑے برتن میں پانی گرم کرایا اور حکم دیا کہ اس ماشاطہ اور اس کی اولاد کو اس کھولتے ہوئے پانی میں پھینک دیا جائے۔
اس دوران فرعون نے پوچھا تیری کوئی خواہش ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں میری اور میری اولاد کی ہڈیاں اکٹھی کر کے ایک جگہ دفنا دینا۔ فرعون نے اس کی یہ بات مان لی۔ اس کی اولاد کو ایک ایک کر کے ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیا گیا، جب اس کے شیر خوار بچے کی باری آئی تو خاتون کی ممتا نے جوش مارا اور وہ ذرا پیچھے ہٹی تو اس شیر خوار بچے نے کہا: اماں جان بے خوف و خطر اس میں کود جاؤ! آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے اور ماشاطہ کھولتے ہوئے پانی میں کود گئی۔
مجاہدین اسلام کا اعزاز
آپﷺ نے چند اہل جنت کے احوال بھی مشاہدہ فرمائے۔ آپﷺ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو ایک ہی دن میں بیج بوتے اور فصل کاشت کر رہے تھے۔ ان کے بارے میں جبرائیل ؑنے بتایا کہ یہ آپ ﷺکی امت کے مجاہدین ہیں۔ ان کی ایک نیکی سات سو نیکیوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔اسی طرح بعض صحابہ کرامؓ کے محلات بھی آپ ﷺ نے اس سفر میں دیکھے۔
انبیاء کرام ؑ کی امامت
آپﷺ بیت المقدس پہنچے جہاں پہلے سے انبیاء کر ام علیہم السلام اور ملائکہ آپﷺ کے انتظار میں تھے۔ حضرت جبرائیل ؑنے آپ ﷺکا ہاتھ پکڑا اور مصلیٰ امامت پر کھڑا کر دیا۔ آپﷺ نے ان سب کو دو رکعت نماز پڑھائی اور’’امام الانبیاء‘‘کے شرف سے مشرف ہوئے۔
انبیاء کرامؑ سے ملاقات کی حکمتیں
بیت المقدس سے عرش معلّیٰ تک کا سفر شروع ہوا۔ بالترتیب پہلے تا ساتویں آسمان پر آپﷺ نے حضرت آدم، حضرت عیسیٰ، حضرت یوسف، حضرت ادریس، حضرت ہارون، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام سے ملاقات فرمائی۔
سدرۃ المنتہیٰ
آپﷺ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ ’’سدرہ‘‘ بیری کا نام ہے اور منتہیٰ کہتے ہیں اختتام کو۔یہ وہ مقام ہے جہاں نیچے والے اعمال پہنچتے ہیں تو اوپر والے فرشتے یہاں سے اوپر کی طرف لے جاتے ہیں اور اوپر والے احکام وہاں آتے ہیں تو نیچے والے فرشتے وہاں سے نیچے لاتے ہیں۔
ذات باریٰ تعالیٰ کی زیارت
آپ ﷺ عرش پر گئے ، اللہ کی بات کو سنا بھی، اللہ کی ذات کو دیکھا بھی۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے‘‘۔
نمازیں اور سورۃ البقرہ کی آخری آیات
اسی موقع پر پانچ نمازوں کی فرضیت کا حکم بھی ہوا۔ پہلے پہل تو پچاس نمازوں کا حکم تھا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش پر بار بار کمی کے بعد پانچ نمازیں باقی بچیں۔ بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ البقرۃکی آخری چند آیات بھی اسی سفر معراج میں بطور تحفہ آپ ﷺکو عنایت کی گئیں۔
مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین،عالمی اتحاد اہل سنت و الجماعت کے امیر اوردو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔