اسلام آباد: (مفتی محمد وقاص رفیع) قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولﷺ نے ایمان والوں کو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز اور ناحق طور پر کھانے سے بڑی سختی سے منع کیا ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ! مگر یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے)‘‘ (سورۃ النساء:29)۔ علماء نے ناحق طریقے سے مال کھانے کے ضمن میں بے شمار چیزیں ذکر کی ہیں، جن میں سے ڈکیتی، چوری، رشوت، سود، جواء، غصب، خیانت، ناپ تول میں کمی بیشی، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی، مالِ یتیم میں خرد برد اور جھوٹی قسم سے حاصل کیا گیا مال سرفہرست ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگ لمبی لمبی دُعائیں مانگتے ہیں، حالاںکہ اُن کی حالت یہ ہے کہ اُن کا کھانا حرام کا ہوتا ہے اور اُن کا کپڑا حرام کا ہوتا ہے، پھر ایسے لوگوں کی دُعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے؟‘‘ (صحیح مسلم، ترمذی)۔
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے عرض کیا کہ: ’’یارسول اللہ ﷺ میرے لئے دُعا کیجئے کہ میں ’’مستجاب الدعوات ہو جاؤں‘‘ آپﷺنے فرمایا کہ ’’اپنے کھانے کو پاک کرو، اللہ کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو 40 دن تک اللہ تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا۔ جس شخص کا بدن حرام مال بڑھا تو اُس کا بدلہ سوائے جہنم کے اور کچھ بھی نہیں ہے‘‘ (معجم طبرانی)۔
حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے دس درہم کا لباس خریدا، لیکن اُس میں ایک درہم حرام کا تھا تو جب تک یہ لباس اُس کے بدن پر رہے گا، اُس کی نماز قبول نہیں ہوگی‘‘ (مسند احمد)۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی روایت میں ہے کہ ’’جس نے حرام مال سے کرتا (قمیض) پہنی تو اُس کی نماز قبول نہیں ہو گی۔ (مسند بزاز)۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’منہ میں خاک ڈال لینا اِس سے بہتر ہے کہ کوئی شخص حرام مال اپنے منہ میں ڈالے‘‘ (مسند احمد)۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اگر کسی نے حرام مال جمع کیا، پھر اُس میں سے زکوٰۃ ادا کی یا صدقہ دیا، تو اُس کا اِس کا کچھ اجر نہیں ملے گا، بلکہ اُلٹا اُس کو اِس کا وبال ہوگا‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔
حضرت قاسم بن مخیرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے حرام ذریعہ سے مال جمع کیا، پھر اُس میں سے صدقہ کیا، یا اللہ تعالیٰ کے راستہ میں صرف کیا، یا قرابت داروں پر خرچ کیا، یا اُس سے غلام آزاد کیا، تو بجائے اجر کے اِس پر اُس کو وبال ہوگا اور وہ شخص جہنم میں داخل کیا جائے گا‘‘۔
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ: ’’حضورِ اقدسﷺنے ناپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کو فرمایا کہ تم ایسا کام کر رہے ہو جس سے پہلی اُمتیں ہلاک ہوچکی ہیں‘‘ (ترمذی)۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’ناپ تول میں کمی بیشی سے قحط پڑ جاتا ہے، جس طرح بدکاری کی کثرت سے طاعون مسلط ہوجاتا ہے‘‘ (ابن ماجہ، بزاز، بیہقی)۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘ (صحیح مسلم) ۔
حضرت ابن مسعوؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک شخص نے سوکھے گیہوں اوپر رکھ چھوڑے تھے اور گیلے اندر کر دیئے تھے، تو آپ ﷺ نے ہاتھ سے اُٹھا کر دیکھا اور فرمایا: ’’جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘ (مسلم ،ابن ماجہ)۔
حافظ ابن حجر مکیؒ نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے تجارت میں اپنے ایک شریک کے پاس کپڑا بھیجا اور بتایا کہ کپڑے میں عیب ہے، خریدار کو عیب سے آگاہ کر دینا، اُس نے وہ کپڑا فروخت کیا لیکن خریدار کو عیب بتلانا بھول گیا، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جب معلوم ہوا اُس سے حاصل ہونے والی ساری قیمت صدقہ کر دی، جس کی قیمت تین ہزار درہم تھی (الخیرات الحسان)۔
حضرت معمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ غلہ گرانی کے لئے وہی شخص روکتا ہے جو گناہ گار اور خطا کار ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)۔
حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے چالیس دن سے زیادہ غلہ کو اپنے پاس روکا تو اللہ تعالیٰ کا اُس سے کوئی واسطہ نہیں‘‘ (بزاز، ابو یعلیٰ)۔
حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’غلہ کو روکنے والا ملعون ہے‘‘ (ابن ماجہ)۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص غلہ کی گرانی میں کوشش کرتا ہے اور نرخ میں دخل اندازی کر کے غلہ کا بھاؤ مہنگا کر دیتا ہے تو ایسا شخص اِس قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی تہہ میں ڈالے‘‘ (ابو داؤد)۔
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جو شخص شدید ضرورت کے وقت غلہ کو روکے گا، تو اللہ تعالیٰ اُس کو جذام اور افلاس میں مبتلا کر دے گا‘‘ (ابن حبان)۔
حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: ’’بائع اور مشتری جب سچ بولتے ہیں تو برکت ہوتی ہے۔ جب کچھ چھپاتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں تو برکت ختم ہوجاتی ہے۔ جھوٹی قسم سے مال تو بک جاتا ہے مگر برکت ختم ہوجاتی ہے‘‘(بخاری ومسلم)۔
حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشا د فرمایا : ’’جو شخص جھوٹی قسم کھا کر مال فروخت کرتا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس کی طرف نظر بھر کر بھی نہ دیکھے گا‘‘ (بخاری)۔
حضرت سلمانِ فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشا د فرمایا: ’’بوڑھا زنا کار، جھوٹی قسم کھا کر مال فروخت کرنے والا اور فقیر متکبر اِس قابل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے‘‘ (معجم طبرانی)۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ کوفہ میں ’’مستجاب الدعوات‘‘ لوگوں کی ایک جماعت تھی، جب کوئی حاکم اُن پر مسلط ہوتا ، اُس کے لئے بد دُعا کرتے وہ ہلاک ہو جاتا۔ حجاج ظالم کا جب وہاں تسلط ہوا تو اُس نے ایک دعوت کی، جس میں اُن حضرات کو خاص طور سے شریک کیا، اور جب کھانے سے فارغ ہو چکے تو اس نے کہا کہ میں اِن لوگوں کی بد دُعا سے محفوظ ہوگیا کہ حرام کی روزی اُن کے پیٹ میں داخل ہوگئی۔
مفتی محمد وقاص رفیع اسلامک ریسرچ اسکالر ’’ الندوہ‘‘ ایجوکیشنل ٹرسٹ اسلام آباد ہیں