اسلام آباد: (ویب ڈیسک) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا ہے کہ غریب کو آٹا میسر نہیں، عمران خان نے 300 کنال زمین کیسے بنائی، احتساب سب کا ہونا چاہئے، سپریم کورٹ کے ججوں کا بھی آڈٹ ہونا چاہئے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے نور عالم خان نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کرپشن کے جو کیسز بے نقاب کرتی ہے اس پر سپریم کورٹ حکم امتناعی جاری کر دیتی ہے، ایوان کے اندر اور باہر موجود جماعتوں کے لیڈروں سے استدعا ہے کہ وہ پاکستان کی وفاقیت کو نقصان نہ پہنچائیں۔
نور عالم خان نے کہا کہ ایک سابق وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ پختونوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، تاہم گذشتہ ایک سال میں پختونوں کے خلاف کوئی ظلم نہیں ہوا، انہیں انتخابات کی فکر ہے تاہم یہ فکر نہیں کہ غریب کو آٹا میسر نہیں، معیشت تباہ ہو رہی ہے، سڑکیں بلاک کر کے انتشار پھیلایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے بھی نخرے شروع کر دیئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے غریب عوام اور معیشت کیلئے سوچیں اور انتشار ختم کریں، 2010ء سے پی اے سی میں ہوں، صرف ایک ادارہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہے جس کا آڈٹ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے عرض ہے کہ کونسے قانون کے تحت وہ آڈٹ نہیں کرا رہے، کس قانون کے تحت تنخواہیں بڑھائی جا رہی ہیں، کس قانون کے تحت افسران کو بلا کر زبردستی پلاٹ دیئے جاتے ہیں۔
نور عالم خان نے کہا کہ بھاشا ڈیم فنڈ کا آڈٹ کرانا چاہتے ہیں جہاں پر پاکستان کے عوام اور اداروں نے فنڈز دیئے، وہاں سٹیٹ بینک کو کہا گیا کہ آڈیٹر جنرل پاکستان کو اس کی تفصیلات نہیں دینی، ایسا کونسا قانون ہے کہ یہ احتساب سے ڈرتے ہیں، میرا روزانہ احتساب ہوتا ہے، ہم احتساب سے نہیں ڈرتے، ہمارے حلقہ کے عوام ہمارا احتساب کرتے ہیں، نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر، الیکشن کمیشن سمیت ہر جگہ جوابدہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے بتائیں کہ عمران خان نے 300 کنال زمین کیسے بنائی، بلٹ پروف گاڑی کہاں سے لائی، زمان پارک کا نیا گھر کس نے بنایا۔
نور عالم کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی، بلین ٹری کے حوالہ سے چیئرمین نیب نے تسلیم کیا کہ وہاں پر انگوٹھے کی شناخت پر اربوں روپے ایک ایک بندے کے نام پر ہیں، اس پر کارروائی کیوں نہیں کرتے، خیبرپختونخوا میں 10 سال حکومت کی، اس دوران کتنے وزیروں کو پکڑا گیا، سرکاری ہسپتالوں میں 15 لاکھ کے بیڈ خریدے گئے، ٹیکسٹ بک بورڈ میں تین ارب روپے کا کیس ہے اس پر کوئی کارروائی نیب نے نہیں کی۔