اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ میرے نزدیک ملک کو جس دلدل میں دھکیلا گیا آنے والی حکومت کو بھی مشکلات ہوں گی، ہم نے اس وقت تجزیہ دیا تھا مشکلات سے نکلنا مشکل ہو گا۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کچھ چیزوں کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، کل وزیر اعظم کی صدارت میں اتحادی جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس ہوا، جس میں موضوع تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات تھا، سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کو بات چیت کیلئے مجبور کر رہی تھی، اس حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان میں پریس کانفرنس بھی کی تھی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کل کے اجلاس میں بھی اپنا وہی موقف دیا، وزیر اعظم نے اس حد تک اتفاق کیا اگر پی ٹی آئی قیادت سے بات نہیں کرنا چاہتے تو سینیٹ میں بات چیت کر لی جائے، سینیٹ فیڈریشن کی نمائندگی کرتا ہے، پاکستان میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن اکٹھے ہوئے ہیں، تعجب اس بات پر ہے عدالت کیوں 90 دن پر پھنس گئی، فیڈریشن کو بچانا مطلب ملک کو بچانا ہوتا ہے۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا ہے کہ اگر آج پنجاب میں جو پارٹی کامیاب ہوگی تو پھر باقی صوبوں میں بھی وہی ہو گی، آج کے سپریم کورٹ کے رویئے کو مثبت پہلو سے دیکھ رہے ہیں، اپنا موقف واضح کر دینا چاہتا ہوں، یہ سیاست دانوں کا بھی نہیں الیکشن کمیشن کا مشاورت کا اختیار ہے، اگر سینیٹ میں بات چیت ہو گی تو پھر بھی اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں سیاست دانوں کو مشاورت کیلئے بلانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، مردم شماری پر عدم اعتماد کیا جا رہا ہے، کراچی، حیدر آباد، کوئٹہ، فاٹا، اندرون سندھ میں بھی عدم اعتماد ہو رہا ہے، یہ کیسا ملک ہے آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے، اسی حوالے سے نئی حلقہ بندیاں ہونی ہیں، ڈیجیٹل سسٹم کے تحت مردم شماری کی جا رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت مردم شماری کرنے کا طریقہ کار ٹھیک نہیں، مردم شماری کے حوالے سے کمیشن بنایا جائے، عمران خان کی گزشتہ حکومت نے مہا چوریاں کی ہیں، ان کا بھی فوری احتساب ہونا چاہیے، ہم نے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جلسوں کا شیڈول جلد دیں گے، ملک کو دلدل میں کس نے پھنسایا ہے، کس نے آئی ایم ایف میں پھنسایا عوام کو آگاہ کریں گے۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ ہم عدالت کے فیصلے کو ناقابل قبول نہیں کہتے تاہم یہ ناقابل عمل ہے، 2018 کے الیکشن میں بہت بڑی دھاندلی ہوئی، ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، عدالت کو کہنا چاہتا ہوں آپ نے ان کو ابھی تک نہیں پہچانا، ہم ان کو بارہ سال پہلے پہچان چکے ہیں، ہم نے ثابت کیا ہے حکومتی اتحاد متحد ہے۔
انہوں نے کہا کہ جزوی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن بڑے مقاصد کو بھی جانتے ہیں، آج ملک میں قومی حکومت ہے، ہم نے تحریک انصاف کے کسی اراکین سے ووٹ نہیں لیا، مذاکرات سے انکار کا مطلب ہم الیکشن یا جمہوریت سے انکار نہیں کر رہے، ادارے کہہ رہے ہیں سکیورٹی مہیا نہیں کر سکیں گے، مردم شماری میں بھی سٹاف مصروف ہے، ہم چاہتے ہیں عدالتیں ان چیزوں کا ادراک کریں۔