اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کی عبوری ضمانت 2 ہفتے کیلئے منظور کر لی۔
سماعت کا آغاز
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی سربراہی میں جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل ڈویژن بنچ نے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
عدالت میں بدنظمی
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو کمرۂ عدالت میں عمران خان کے حق میں نعرے لگائے گئے، نعرے لگانے پر ججز نے اظہارِ برہمی کیا اور عدالت سے اٹھ کر چلے گئے۔
اس موقع پر میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس طرح نہیں چلے گا، یہ کوئی طریقہ نہیں، مکمل خاموشی ہونی چاہیے۔
جس کے بعد عدالت کی جانب سے کیس کی سماعت میں جمعے کی نماز کا وقفہ کر دیا گیا۔
وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز
عدالت میں نماز جمعہ کے وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز کیا گیا تو خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری اور حفاظتی ضمانت کی درخواست ہے، ہم نے ایک اور درخواست میں انکوائری رپورٹ کی کاپی مانگی ہوئی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ نیب کو انکوائری رپورٹ کی کاپی فراہم کرنے کا حکم دیا جائے، نیب کی انکوائری رپورٹ کا اخبار سے پتہ چلا۔
عدالت نے سوال کیا کہ آپ کو نوٹس کے ساتھ کوئی سوالنامہ نہیں دیا گیا، کیا آپ نے نیب آفس وزٹ کیا؟
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے اپنے دلائل میں کہا کہ جو پٹیشن یہاں دائر کی گئی اس کیلئے متبادل فورم موجود ہے، رٹ پٹیشن میں یہ معاملہ ہائیکورٹ لانے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں، آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا گیا ہے، جس طرح کے پر تشدد واقعات ہوئے اس کے بعد فوج کو طلب کیا گیا۔
جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ کیا یہاں مارشل لاء لگ گیا ہے کہ ہم تمام درخواستوں پر سماعت روک دیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر عدالت اٹارنی جنرل کو بلا کر بھی سن لے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے عدالت میں کہا کہ 15 جولائی کو انکوائری شروع ہوئی جس کے بعد کال اپ نوٹس جاری ہوا، عمران خان کبھی بھی انکوائری میں پیش نہیں ہوئے، اس کیس میں ایک بزنس ٹائیکون، زلفی بخاری اور دیگر کو نوٹسز ہوئے، میاں محمد سومرو، فیصل واوڈا اور دیگر کو بھی نوٹسز ہوئے جنہوں نے انکوائری جوائن کی، شہزاد اکبر کو بھی نوٹس ہوا مگر انکوائری جوائن نہیں کی۔
بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی دو ہفتوں کیلئے عبوری ضمانت منظور کر لی اور نیب کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوشن سے کہا کہ آئندہ سماعت پر ہم دلائل سن کر ضمانت منظور یا خارج کرنے کا فیصلہ کرینگے، آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کر کے آئیے گا۔
خواجہ حارث نے بتایا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں انکوائری کی کاپی مل گئی ہے ، بشریٰ بی بی کے کیس میں بھی انکوائری رپورٹ مل گئی ہے۔
عمران خان کی عدالت آمد
قبل ازیں ڈی آئی جی آپریشنز کی نگرانی میں پولیس چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو پولیس لائنز سے لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچی،عدالت پہنچنے کے بعد عمران خان ڈائری برانچ میں گئے جہاں ان کا بائیو میٹرک کیا گیا۔
عمران خان کی عدالت میں پیشی کے موقع عدالت کے اطراف پی ٹی آئی کارکنان جمع ہوگئے جنہیں پولیس نے منتشر کر دیا۔
عمران نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے معافی کیوں مانگی؟
وقفے کے بعد سماعت سے قبل ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور پی ٹی آئی کے وکیل سیف الرحمٰن کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔
عمران خان کمرۂ عدالت میں کھڑے ہوگئے اور کہا کہ تمام لوگ پُرامن رہیں اور عدالت کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔
عمران خان نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون سے معافی مانگ لی، عمران خان کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل سیف الرحمٰن نے بھی جہانگیر جدون سے معافی مانگ لی۔
عمران خان کا لیگل ٹیم سے رابطہ
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے سماعت سے قبل گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر اپنی لیگل ٹیم سے رابطہ کیا،عمران خان نے وکیل حامد خان سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ پنجاب پولیس مجھے گرفتار کرنے کیلئے باہر کھڑی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ میں آپ کو تمام صورتحال سے آگاہ کر رہا ہوں، مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا تو وہی ردعمل آئے گا ، میں نہیں چاہتا کہ دوبارہ ایسی صورتحال پیدا ہو، آپ صورتحال کے حوالےسے تیاری کریں۔
خصوصی ڈویژن بنچ تشکیل
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کیلئے خصوصی ڈویژن بنچ تشکیل دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل بنچ تشکیل دیا تھا۔
100 فیصد خدشہ ہے کہ گرفتار کر لیا جاؤں گا: عمران خان
عدالت میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے 100 فیصد خدشہ ہے کہ آج گرفتار کر لیا جاؤں گا۔
صحافی نے ان سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ آج گرفتار ہو سکتے ہیں؟
عمران خان نے صحافی کے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے نیب نے اپنی اہلیہ سے بات کرنے کی اجازت دی تھی۔
صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ آپ کو گرفتاری کے دوران فون مل گیا تھا؟ عمران خان نے جواب دیا کہ میں نے لینڈ لائن کے ذریعے بات کی تھی۔
عمران خان سے سوال کیا گیا کہ فون آپ کو اہلیہ سے بات کرنے کیلئے دیا گیا تھا، آپ نے مسرت چیمہ کو ملا دیا؟،عمران خان نے جواب دیا کہ میری بشریٰ بی بی سے بات نہیں ہو سکی تھی۔
غیر متعلقہ افراد کو کورٹ روم سے نکال دیا گیا
عمران خان کی پیشی سے قبل کورٹ روم نمبر 3 میں شدید دھکم پیل نظر آئی، جس کے بعد غیر متعلقہ افراد کو کورٹ روم نمبر 3 سے نکال دیا گیا۔
اس موقع پر وکلاء کی سکیورٹی عملے سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔
درخواستیں دائر
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے ان کے وکلاء نے القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت کے علاوہ 4 دیگر درخواستیں بھی دائر کیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی عمران خان کے خلاف جتنے مقدمات درج ہو چکے ان کی تفصیلات فراہم کی جائے اور ان تمام مقدمات کو یکجا کر دیا جائے۔
القادر ٹرسٹ سے متعلق کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت دائر کی گئی، درخواست میں چیئرمین نیب کو فریق بنایا گیا ہے۔
دوسری جانب قومی احتساب بیور (نیب) نے آج ہی عدالت میں درخواست ضمانت کی مخالفت کا فیصلہ کر لیا، ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل نیب سردار مظفر چیف جسٹس کی عدالت میں موجود ہیں۔
سخت سکیورٹی انتظامات
عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے باعث عدالت کے اطراف سکیورٹی انتظامات سخت کر دیئے گئے ہیں، پولیس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پچھلے دروازے کو سیل کر دیا ہے اور دو دروازوں پر سکیورٹی کےانتہائی سخت انتظامات ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیراعظم و پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی گرفتاری غیرقانونی قرار دی تھی، تاہم بنی گالا جانے کی درخواست بھی مسترد کردی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے آج اسلام آباد ہائی کورٹ سے دوبارہ رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کو گزشتہ روز چیلنج کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دی تھی۔
اسلام آباد پولیس
دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے واضح کیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی ریلی، اجتماع اور خطاب کی اجازت نہیں ہوگی اور خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی کی جائے گی۔
پولیس ترجمان نے اعلامیے میں کہا کہ شہریوں سے گزارش ہے کہ جی ٹین اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب غیر ضروری سفر سے گریز کریں جبکہ احتجاج کی کال دینے والوں سے گزارش ہے کہ نقص امن کا باعث نہ بنیں۔
ترجمان نے واضح کیا کہ اسلام آباد پولیس قیام امن عامہ کیلئے کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی، سیاسی ورکرز سے گزارش ہے کہ قانونی عمل میں رکاوٹ نہ بنیں، احتجاج کیلئے اکسانے والے افراد کی معلومات حاصل کی جا رہی ہیں، جن کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔