اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ نے رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فواد چودھری کی رہائی کا حکم دے دیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے تھری ایم پی او کے تحت فواد چودھری کی گرفتاری کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے فواد چودھری کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے 2 مزید مقدمات میں انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا۔
رہائی کے بعد فواد چودھری نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کو گنجائش دینی ہوگی، میں یہ سمجھتا ہوں ہر طرف سے تحمل کا مظاہرہ ہونا چاہیے، کوئی حل نکالنا چاہئے مذاکرات ہونے چاہئیں، یہ ملک پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پولیس کی دوبارہ گرفتاری کی کوشش
پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری گرفتاری کے خوف سے گاڑی سے اتر کر بھاگ گئے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل فواد چوہدری کو پہلے ضمانت کے باوجود سپریم کورٹ کے احاطے سے بغیر کسی وارنٹ کے اغواء کیا گیا اور اب انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت ملنے کے باوجود ایک مرتبہ پھر اغواء کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔#PakistanUnderFascism
— PTI (@PTIofficial) May 16, 2023
pic.twitter.com/qLLUZTOOzE
فواد چودھری رہائی کے بعد باہر جانے کیلئے گاڑی کے پاس پہنچے تو پولیس نے انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کی کوشش کی، انہوں نے اپنے سامنے پولیس اہلکاروں کو دیکھا تو وہ گاڑی سے اتر کر بھاگ نکلے۔
رہنما پی ٹی آئی گاڑی سے نکل کر تیزی سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اندر بھاگے جس دوران وہ گر گئے اور پھر اٹھنے کے بعد وہ کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل فواد چوہدری کو پہلے ضمانت کے باوجود سپریم کورٹ کے احاطے سے بغیر کسی وارنٹ کے اغواء کیا گیا اور اب انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت ملنے کے باوجود ایک مرتبہ پھر اغواء کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔#PakistanUnderFascism pic.twitter.com/a3tgyxqz2Y
— PTI (@PTIofficial) May 16, 2023
سماعت کی کارروائی
قبل ازیں دورانِ سماعت فواد چودھری کے وکیل بابر اعوان، فیصل چودھری ایڈووکیٹ اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے فواد چودھری کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
فواد چودھری کے وکیل فیصل چودھری کا کہنا تھا کہ فواد چودھری بکتربند گاڑی میں موجود ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے حکم پر فواد چودھری کو عدالت میں پیش کردیا گیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے ایک آرڈر جاری کیا جس پر عمل نہیں ہوا، آرڈر نہ آئی جی اسلام آباد اور نہ ہی کسی اور نے دیکھا، جب آپ نے انہیں پکڑا تو اس وقت آرڈر دکھایا گیا، آپ کے پاس آرڈر کی تصدیق کے کئی طریقے تھے، 9 مئی خوشگوار دن نہیں تھا، خدشات درست تھے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست گزار رہائی کے بعد انڈر ٹیکنگ دیں کہ وہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی نہیں کریں گے، یہ بھی یقین دہانی کرائیں کہ قانون کی خلاف ورزی نہیں کریں گے، انڈر ٹیکنگ کی خلاف ورزی ہوئی تو ان ارکان پارلیمان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی، اس بنیاد پر ارکان پارلیمان نا اہل بھی ہوسکتے ہیں، عدالت وقت دے رہی ہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور آئی جی اس معاملے کو دیکھیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کا کہنا تھا کہ کچھ حقائق عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، عدالتی حکم کی کاپی آئی جی آفس اور لاء افسران کو نہیں دی گئی، بائیو میٹرک بھی نہیں کرائی گئی۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ آپ جج نہیں ہیں، یہ ہم نے دیکھنا ہے کہ بائیو میٹرک ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:فواد چودھری کیخلاف توہین الیکشن کمیشن کیس میں فرد جرم عائد نہ ہوسکی
ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ فواد چودھری کو کسی مقدمے میں گرفتار نہیں کیا گیا، اگر کسی مقدمے میں گرفتاری ہوتی تو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوتا، عدالت نے کسی بھی مقدمے میں گرفتاری سے روکا تھا، اگر مقدمے میں گرفتار کرتے تو میں بھی رہائی کا کہتا، عدالت نے جس پٹیشن پر گرفتاری سے روکا اس میں بھی ڈی سی فریق نہیں تھے، فواد چودھری نے اپنے کنڈکٹ سے ثابت کرنا ہے کہ وہ پر امن شہری ہیں، 9 مئی کے واقعات میں قوم کا اربوں روپے کا نقصان ہوا۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ہم ان کے خلاف کارروائی سے تو نہیں روک رہے۔
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ میں پہلے سارا دن ہائی کورٹ میں تھا اور اگلے تمام دن سپریم کورٹ میں۔
ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ عمران خان کے کیس میں عدالت نے گرفتاری سے روکتے ہوئے ایم پی او کا الگ سے ذکر کیا، اگر وہ صرف مقدمات میں گرفتاری روکتے تو ایم پی او کے تحت گرفتاری ہو سکتی تھی۔
وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر کو اب تو ہائی کورٹ کے حکم سے متعلق معلوم ہوگیا، عدالت فواد چودھری کی گرفتاری روکنے کے حکم میں توسیع کر دے، فواد چودھری کو متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی مہلت دی جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پولیس کو فواد چودھری کو گرفتاری سے روکنے کی کوئی دستاویز دکھائی گئی؟
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ آرڈر سنایا گیا تو پولیس افسر نے کہا کہ مجھے انگریزی نہیں آتی، فواد چودھری کو جن خدشات پر گرفتار کیا گیا ان کا مواد موجود ہی نہیں۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ جو واقعات ہوئے ان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، فواد چودھری ایک اہم شخصیت ہیں، وفاقی وزیر رہ چکے ہیں، کیا آپ کو پاکستان کے ہجوم کا نہیں معلوم؟ آپ کہتے ہیں باہر نکلو تو کیا مطلب لے رہے ہوتے ہیں کہ صرف شریف لوگ باہر نکلیں؟ اس مواد پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یہ آرڈر پاس نہ کریں تو کیا کریں؟ میرا مسئلہ ہے کہ میں بہت واضح ہوں اور کھل کر بات کرتا ہوں، فواد چودھری کو عدالت بلانے کا مقصد انہیں رہا کرنا تھا، اس عدالت نے یہ مواد پہلے نہیں دیکھا تھا۔
عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا، بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے فواد چودھری کی گرفتاری غیر قانونی قرار دے دی اور انہیں رہا کرنےکا حکم دے دیا۔
ملک کو نقصان ہو رہا ہے بہتر ہے صلح کی طرف جائیں: فواد چودھری
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے کہا کہ ملک بھر میں 8 سے 10 ہزار افراد گرفتار ہیں، ملک کا نقصان ہو رہا ہے بہتر ہے معاملہ صلح کی طرف جائے۔
آرمی اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت گرفتاریوں سے متعلق سوال کے جواب میں فواد چودھری کا کہنا تھا کہ اپنے لوگوں کیخلاف کیسے مقدمات چلائیں گے، سیاسی درجہ حرارت نیچے نہیں آ رہا، پی ٹی آئی کی دیگر قیادت بھی اڈیالہ جیل میں ہے۔
اس موقع پر ایک صحافی نے پوچھا کہ رویہ کیسا رہا کیا دباؤ ڈالا جا رہا ہے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ضمانت ہو لینے دیں بعد میں بات کرتے ہیں۔
فواد چودھری نے کہا کہ فوجی تنصیبات پر حملے کی پہلے بھی مذمت کی ہے، ہم جیل میں تھے، گرفتار تھے، نہیں پتا باہر کیا ہوا۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ جیل میں اگر کوئی اہم ملاقات ہوتی تو یہ حال ہوتا؟ دوران گرفتاری کل فیملی سے رابطہ ہوا، کیس ہی مذاق ہے، یہاں سے نکلیں گے تو کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیں گے، 8 ہزار افراد اس وقت جیلوں میں ہے۔