اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب میں انتخابات کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ انتخابات سے پنجاب، خیبرپختونخوا کے کروڑوں عوام کے حقوق وابستہ ہیں، عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے۔
چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وفاق اور پنجاب حکومت نے عدالت میں جو جواب جمع کرایا وہ ہمیں ابھی ملا ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ شاید تحریک انصاف نے جواب جمع نہیں کرایا، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ تحریک انصاف سمیت کسی فریق کے جواب کی کاپی نہیں ملی۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب انتخابات : وفاقی حکومت نے 14مئی کو الیکشن کے فیصلے پرنظرثانی کی استدعا کردی
وکیل الیکشن کمیشن نے استدعا کی کہ تمام جوابات کا جائزہ لینے کیلئے موقع دیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی درخواست پر تو دلائل دیں، آئندہ سماعت پر کوئی نیا نکتہ اٹھانا ہوا تو اٹھا سکتے ہیں۔
کوئی بھی جواب پہلے سے مجھے فراہم نہیں کیا گیا: وکیل الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں شکوہ کیا کہ کوئی بھی جواب پہلے سے مجھے فراہم نہیں کیا گیا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم آپ کی مدد کریں کہ جوابات میں کیا کہا گیا ہے؟ پہلے یہ بتانا ہے کہ کیسے نظرثانی درخواست میں نئے نکات اٹھا سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں محدود نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا جا سکتا ہے لیکن کم نہیں کیا جا سکتا، نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار دیوانی اور فوجداری مقدمات میں محدود ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بنیادی حقوق کیلئے عدالت سے رجوع کرنا سول نوعیت کا کیس ہوتا ہے، آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی، آرٹیکل 184(3) کا ایک حصہ عوامی مفاد اور دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر انتخابات کا مقدمہ ہائی کورٹ سے ہو کر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہائی کورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔
عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے: جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات سے پنجاب خیبرپختونخوا کے کروڑوں عوام کے حقوق وابستہ ہیں، عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے، ہائی کورٹ سے اپیل آئے تو آپ کے مطابق عدالتی دائرہ کار محدود ہے، نظر ثانی کیس میں آپ کا مؤقف ہے کہ دائرہ کار محدود نہیں۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیا یہ بنیادی حقوق کے مقدمے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں، سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیار میں ابہام پیدا کرے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 184 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں کیا جاسکتا، عدالت کو نظرثانی میں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہے، نظرثانی میں ضابطے کی کارروائی میں نہیں پڑنا چاہیے، آئینی مقدمات میں نیا نقطہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں:نگران پنجاب حکومت نے صوبے میں فوری انتخابات کی مخالفت کردی
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آپ کی دلیل ہے 184(3) میں نظرثانی کو اپیل کی طرح سماعت کی جائے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ بالکل میں یہی کہہ رہا ہوں 184(3) میں نظرثانی اپیل دراصل اپیل ہی ہوتی ہے، مقدمے میں نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلائل میں بڑے اچھے نکات اٹھائے ہیں لیکن ان نکات پر عدالتی حوالہ جات اطمینان بخش نہیں ہیں۔
آئین میں نہیں لکھا کہ نظرثانی اور اپیل کا دائرہ کار یکساں ہوگا: جسٹس اعجاز الاحسن
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی دلیل مان لیں تو نظر ثانی میں ازسرنو سماعت کرنا ہوگی، آئین میں نہیں لکھا کہ نظرثانی اور اپیل کا دائرہ کار یکساں ہوگا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لیکن آئین میں دائرہ کار محدود بھی نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نظرثانی کو اپیل میں تبدیل مت کریں، آئین نے آرٹیکل 184(3) میں اپیل کا حق نہیں دیا، دائرہ اختیار بڑھانے کیلئے آئین واضح ہونا چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کی دلیل مان لیں تو بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ نظرثانی میں عدالت کو مکمل انصاف کیلئے آرٹیکل 187 کا اختیار بھی استعمال کرنا چاہیے، عدالت کا تفصیلی فیصلہ آ جائے تو زیادہ آسان ہو جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے جو باتیں لکھ کر دیں وہ پہلے کیوں نہیں کیں: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن اور حکومت اس کارروائی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، ماضی میں حکومت بنچ پر اعتراض کرتی رہی ہے، کبھی فل کورٹ کبھی 4 تو کبھی 3 رکنی بنچ کا نکتہ اٹھایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو باتیں آپ نے لکھ کر دی ہیں وہ پہلے کیوں نہیں کی گئیں، کیا کسی اور ادارے نے اب الیکشن کمیشن کو یہ مؤقف اپنانے پر مجبور کیا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ نیا مؤقف تو اپیل میں بھی نہیں کیا جا سکتا۔
بعدازاں کیس کی مزید سماعت کل دوپہر 12 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
پی ٹی آئی نے نظرِ ثانی کیس میں جواب جمع کرا دیا
اسی ضمن میں تحریک انصاف نے پنجاب الیکشن نظرثانی کیس میں جواب جمع کرا دیا، تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کر دی اور کہا کہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمیشن نے نئے نکات اٹھائے ہیں جبکہ نظرثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے، الیکشن کمیشن نظرثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے۔
مزید پڑھیں:امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہونگے اور کوئی حل نکل آئے گا: چیف جسٹس
جواب میں کہا گیا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی تاریخ نہیں دی، عدالت نے 90 روز میں انتخابات کیلئے ڈیڈلائن مقرر کی، صدر مملکت نے انتخابات کیلئے 30 اپریل کی تاریخ دی اور الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کی تاریخ کو تبدیل کر دیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر 30 اپریل کی تاخیر کو کور کیا۔
پی ٹی آئی نے کہا کہ 30 اپریل کی تاریخ میں 13 دن کی تاخیر ہوئی، عدالت نے فیصلے میں 13 دن کی تاخیر کو کور کیا، سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کا جائزہ لینے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن چاہتا ہے سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے، نظریہ ضرورت دفن کیا چکا جسے زندہ نہیں کیا جا سکتا، 90 روز میں الیکشن آئینی تقاضا ہے، آرٹیکل 218 کی روشنی میں آرٹیکل 224 کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
تحریری بیان میں پی ٹی آئی نے کہا کہ آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے، آئین میں نہیں لکھا تمام انتخابات ایک ساتھ ہونگے، الیکشن کمیشن کے کہنے پر سپریم کورٹ آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی، آرٹیکل 254 کیلئے 90 دنوں میں انتخابات کے آرٹیکل 224 کو غیر موثر نہیں کیا جا سکتا۔
تحریک انصاف نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ آئین کے بغیر زمینی حقائق کو دیکھنے کی دلیل نظریہ ضرورت اور خطرناک ہے اور ایسی خطرناک دلیل ماضی میں آئین توڑنے کیلئے استعمال ہوئی، عدالت ایسی دلیل کو ہمیشہ کیلئے مسترد کر چکی ہے۔