اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی کی جانب سے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات سے متعلق اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا اختلافی نوٹ اتروا دیا گیا، اختلافی نوٹ میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا ہے کہ پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں، آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمنٹ کو قانون سازی سے نہیں روکتا، عدلیہ کو پارلیمنٹ کے قانون کی جوڈیشل سکروٹنی کا اختیار ہے، اعلیٰ عدلیہ کو قانون کی جوڈیشل سکروٹنی کے اختیار سماعت پر تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے مزید لکھا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کو جوڈیشل سکروٹنی کا اختیار ایسے استعمال کرنا چاہیے جس سے عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکٹیو میں ہم آہنگی برقرار رہے، جوڈیشل نظرثانی کا اختیار تحمل اور دانشمندی سے استعمال کیا جانا چاہیے، جوڈیشل سکروٹنی کا اختیار ایسے استعمال نہیں کر سکتے جس سے عدلیہ اور پارلیمنٹ میں جنگ شروع ہو جائے، ریفارمز آرڈیننس 1972 کو آئین میں قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ریفارمز آرڈینس کے تحت آرٹیکل 199 کے ہائیکورٹ کے آئینی اختیار میں اپیل کا حق دیا گیا، ریفارمز آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر 50 سال گزرنے کے باوجود سوال نہیں اٹھایا گیا، عدالتی فیصلوں کے مطابق عدلیہ کو قانونی سوالات کے حل سے گریز کرنا چاہیے، اپنے ساتھی جج جسٹس مندوخیل کے فیصلہ سے اتفاق نہیں کرتا، قانونی نقطے کی تشریح کیلئے معاملہ چیف جسٹس بھجوانے کی ضرورت نہیں۔
جسٹس حسن رضوی نے اختلافی نوٹ لین دین کے ایک مقدمہ میں تحریر کیا، دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس مندوخیل نے آرٹیکل 199 میں انٹرا اپیل کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوانے کی سفارش کی تھی، جسٹس جمال خان مندوخیال سے اختلاف کر کے جسٹس حسن اظہر رضوی نے اختلافی نوٹ لکھا۔