لاہور: (مولانا محمد الیاس گھمن) اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں حضور خاتم النبّیین حضرت محمد ﷺ کی پاک جماعت صحابہ کرام اور آپﷺ کی آل و اولاد پر جنہوں نے امتِ محمدیہ کو اپنے عمل سے اسلامی زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ سمجھایا۔
آئیے ان کے باہمی طرز زندگی کو حقائق کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور پھر ان پر عمل کرنے کا عزمِ مصمم کرتے ہیں۔ یوں تو آپﷺ کے تمام صحابہ کرامؓ اور آپ ﷺ کی آل و اولاد کا عمل ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے لیکن ماہ محرم الحرام کی مناسبت سے شہیدِ مصلیٰ رسولﷺ، خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ اور نواسہ رسول شہیدِ کربلا سیدنا امام حسینؓ کے آپسی حُسنِ تعلقات، باہمی اعتماد، قلبی محبت، دلی اُلفت، اتحاد و یگانگت، اتفاق و ہم آہنگی اور بہترین سلوک کے حوالے سے چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں، ان واقعات میں ہمارے لیے زندگی گزارنے کے روشن اصول موجود ہیں۔
اُم کلثوم بنت فاطمہؓ کا نکاح
رشتے وہاں لیے اور دیئے جاتے ہیں جہاں باہمی اعتماد اور پیار و محبت ہو چنانچہ ہم دیکھتے ہیں حضرت امام حسینؓ کی ہمشیرہ سیدہ اُم کلثومؓ کا نکاح حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ ہوا، ان سے اولاد (فاطمہ اور زید) بھی ہوئی۔(کتاب المعارف لابن قتیبہ الدینوری م: 276ھ)
کاشانہ فاروقی میں آمدورفت
حضرت عمر فاروقؓ کے نکاح میں حضرت حسنین رضی اللہ عنہما کی ہمشیرہ حضرت ام کلثوم الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں، اس لیے یہ دونوں شہزادے اپنی ہمشیرہ سے ملنے حضرت عمر فاروقؓ کے گھر میں آتے جاتے تھے، حضرت ابو صالحؓ سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں اپنی ہمشیرہ حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کے پاس جایا کرتے تھے، بعض اوقات وہ اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی ہوتی تھیں۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ، رقم الحدیث:17280)
حسینؓ سگی اولاد سے زیادہ عزیز
بارگاہِ فاروقی میں حضرت امام حسینؓ کی قدر و منزلت بہت زیادہ تھی، یہاں تک کہ اپنی سگی اولاد سے بھی زیادہ۔ حضرت یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت امام حسینؓ کو فرمایا: آپؓ کبھی ہمارے ہاں(گھر) تشریف لائیں! چنانچہ عرصے بعد حضرت امام حسینؓ حضرت عمرؓ سے ملاقات کرنے اِن کے گھر تشریف لائے۔ حضرت عمرؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ (حضرت عمرؓ کسی کام میں مصروف ہیں) مجھے بھی اندر جانے کی اجازت نہیں، یہ صورتحال دیکھ کر حضرت حسینؓ (ملاقات کیے بغیر ہی) واپس تشریف لے گئے۔
پھر کچھ عرصہ بعد حضرت عمرؓ سے حضرت حسینؓ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: حسینؓ! کیا بات ہے آپؓ ہمارے ہاں تشریف نہیں لائے؟ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا: میں آپؓ کے گھر گیا تھا، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ آپؓ مصروف ہیں، یہاں تک کہ آپؓ کے صاحبزادے کو بھی ملنے کی اجازت نہیں تھی تو میں واپس آگیا۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا: کہاں میرا بیٹا عبداللہؓ اور کہاں آپؓ کا مقام و مرتبہ! یعنی جب آپؓ تشریف لائے تھے تو مجھے اطلاع بھیج دیتے میں اپنا کام مؤخر کر لیتا اور آپؓ سے ملاقات کرتا، اس کے بعد فرمایا کہ ہمیں جو عزت ملی ہے وہ سب آپؓ لوگوں کی وجہ سے ملی ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر،ج: 14، ص 175)
حسنین کریمین کو یمنی لباس کا ہدیہ
باہمی محبت اور اس میں اضافے کیلئے اسلامی معاشرت نے بنیادی طور پر یہ سبق دیا ہے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے محبت بڑھتی ہے، اس اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے عہدِ فاروقی کا واقعہ پڑھیے۔ امام زُہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے صحابہ کرامؓ کی اولادوں کو (مال غنیمت میں سے) لباس دیئے، ان میں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کے شایان شان کوئی لباس نہیں تھا۔
آپؓ نے یمن کی طرف آدمی روانہ کر کے والی یمن کو حکم بھیجا کہ دونوں شہزادوں (حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) کیلئے خصوصی لباس تیار کر کے بھیجا جائے، جب یہ لباس وہاں سے تیار ہو کر آیا اور ان دونوں شہزادوں نے پہنا تو حضرت عمرؓ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: اب مجھے دلی خوشی ہوئی ہے۔ (سیر اعلام النبلاء للذھبی، الحسین الشھید)
حسنین کریمین کا وظیفہ
عہد فاروقی میں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کیلئے قرابت نبوت کی وجہ سے جو وظیفہ مقرر کیا گیا وہ بدریوں کے وظائف کے برابر تھا، اہل انصاف اسے باہمی پیار و محبت سے ہی تعبیر کرتے ہیں، حضرت عمر بن خطابؓ نے جب مالی امداد کی سرکاری فہرستیں بنوائیں تو حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کیلئے ان کے والد گرامی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے برابر وظیفہ مقرر کیا یعنی بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے موافق پانچ، پانچ ہزار درہم مقرر کئے، اس لیے کہ یہ دونوں جنتی شہزادے نبی کریمﷺ کے خاندان کے افراد ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء للذھبی، الحسن بن علیؓ)
حسنین کریمینؓ کی عزت و توقیر
حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں جب فارس (موجودہ نام ایران) فتح ہوا، اس موقع پر حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو سب سے پہلے حضرت عمرؓ نے بلایا اور انہیں مال عطا فرمایا، حضرت ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے مروی ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے پاس مدینہ طیبہ میں شاہ ایران کے خزانے(بطور مال غنیمت) پیش کئے گئے تو آپؓ نے اس بارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ اس کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟ یعنی کسی پیمانے سے ماپ کر یا ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے اندازہ کر کے تقسیم کیا جائے؟
حضرت علی المرتضیٰؓ نے فرمایا: ہاتھوں کی ہتھیلی سے دینا زیادہ بہتر ہے، چنانچہ حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے حضرت امام حسنؓ کو اسی طرح دیا اور اس کے بعد حضرت حسینؓ کو بلا کر اسی طرح سے عنایت فرمایا اور اس کے بعد لوگوں کو بلا بلا کر دینا شروع کیا۔ (الجامع لمعمر بن راشد الازدی،م:153ھ)
مذکورہ بالا واقعات ان کے باہمی پیار ومحبت کی ہلکی سی جھلک کے طور پر پیش کئے گئے ہیں، ورنہ تاریخ اسلام کا ایک ایک ورق ان کے حق میں گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے نبیﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آپﷺ کی آل و اولاد کے درمیان ہمیشہ اخوت کا رشتہ رہا، اعتماد کا تعلق رہا، حسن سلوک کا معاملہ رہا، عزت و تکریم کا برتاؤ رہا اور انہوں نے پوری اُمت مسلمہ کو عملی طور پر اسی محبت اور اعتماد کا درس دیا۔
آج بھی ان کے اسی باہمی پیار و محبت کو بیان کرنے کی ضرورت ہے جو ان میں آخر دم تک قائم و دائم رہا، اللہ تعالیٰ ہمیں تمام صحابہ اور آل پیغمبرﷺ کی دل و جان سے قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔