اسلام آباد: (دنیا نیوز) توشہ خانہ کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کو دی جانے والی یہ مختصر سزا ہے جو بغیر نوٹس بھی معطل ہو جاتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ کیس، سپریم کورٹ نے سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم تک ملتوی کردی
دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن اپنے کسی افسر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا مجاز قرار دے سکتا ہے، اس کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا کہا۔
چیئرمین تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنر اور 4 ممبران پر مشتمل ہوتا ہے، ریکارڈ میں الیکشن کمیشن کے کمپلینٹ دائر کرنے کا کوئی اجازت نامہ نہیں ہے۔
اس پر وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ میں موجود ہے جس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا وہ اجازت سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کے وکیل سے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت خامیاں ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہماری اپیل منظور کی اور ہائیکورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کیلئے ٹرائل کورٹ کو بھجوائی۔
سردار لطیف کھوسہ نے استدعا کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کر دی جائے، سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل پر دلائل کیلئے ہم دوبارہ عدالت کے سامنے آئیں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے شکوہ
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا چیف جسٹس صاحب، معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا نہیں، اگر ہائیکورٹ نے نہیں روکا پھر بھی جج کو حتمی فیصلہ نہیں دینا چاہیے تھا، ملزم کو اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنے سے روکا ہی نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ایک شخص اپنا دفاع پیش کر رہا ہے آپ کیسے اسے روک سکتے ہیں، 4 گواہ تو پیش کر رہے تھے کوئی 40 تو نہیں تھے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے آئینی حقوق متاثر ہوئے۔
وقفے کے بعد وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے دلائل دیے کہ سزا کیخلاف اپیل میں اسٹیٹ کو فریق بنایا ضروری ہے، سزا سنائے جانے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی سٹیٹ کی تحویل میں ہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس گراؤنڈ پر اپیل مسترد کردی جائے، میرا مدعا یہ ہے کہ کم از کم سٹیٹ کو نوٹس کرکے شنوائی کا موقع دیا جائے۔
امجد پرویز کا کہنا تھا کہ جن کیسز کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس میں ایف آئی آر کے تحت ٹرائل ہوا، اس کیس میں ٹرائل سے پہلے کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی بات مان بھی لیں تو سٹیٹ آکر کیا کرے گی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ چیف جسٹس سٹیٹ کے پاس تو محض تحویل ہے، سٹیٹ کو شنوائی کا موقع ملے تو شاید وہ درخواستگزار کے حق میں کچھ کہہ دے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔