لاہور: (سلمان غنی) مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کی وطن واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی ملکی سیاست میں ہلچل شروع ہے، البتہ جوں جوں 21 اکتوبر کا دن قریب آ رہا ہے میاں نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے قانونی معاملات پر کنفیوژن بڑھتی جا رہی ہے، مگر ان کی اپنی جماعت اس حوالے سے یکسو ہے کہ انہیں وطن واپسی پر عدالتوں کے سامنے سر نڈر کرنا ہے اور عدالتوں سے سرخرو ہو کر ہی سیاسی محاذ پر سرگرم ہوں گے۔
مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کا تو کہنا ہے کہ نوازشریف کے حوالے سے قانونی محاذ پر قطعی پریشانی کا سامنا نہیں، نگران حکومت کے ذمہ داران بھی نوازشریف کی وطن واپسی کے حوالے سے کہتے نظر آتے ہیں کہ نوازشریف کی وطن واپسی کے حوالے سے فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا، خود نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے لندن میں اپنے انٹرویوز میں واضح کہا کہ نوازشریف کی وطن واپسی اور چیئرمین پی ٹی آئی کے الیکشن لڑنے کا فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا۔
البتہ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے نوازشریف کی وطن واپسی اور ضمانت نہ ملنے پر گرفتاری بارے بیان پر (ن) لیگ کے صوبائی صدر رانا ثنا اللہ اور سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے شدید ردعمل نے نگران حکومت اور (ن) لیگ میں تناؤ کی کیفیت پیدا کر دی ہے، وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی جانب سے اپنے اس بیان سے یوٹرن نے جلتی پر پانی ڈالنے کی کوشش تو کی ہے لیکن (ن) لیگ کے ذمہ داران اس صورتحال میں ایسے کسی بیان کو نوازشریف کی وطن واپسی کے حوالے سے ماحول اور استقبال پر اثر انداز ہونے کی سنجیدہ کوشش سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ رانا ثنا اللہ نے نگران وزیر داخلہ کے بیان پر یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ایسا کوئی بیان دینے سے پہلے شیخ رشید کے انجام کو دیکھ لیں، اب تک کی صورتحال میں ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نوازشریف کی وطن واپسی کے حوالے سے کسی قسم کی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی، البتہ بعض عناصر نوازشریف کے اس بیانیہ کو بنیاد بنا کر ایک مہم ضرور شروع کئے ہوئے ہیں جس میں نوازشریف نے بعض عدالتی و عسکری شخصیات کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن بعض حلقے اس بیانیے کو مقتدرہ کیلئے چیلنج قرار دیتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ نوازشریف کے آنے کے بعد ان کا طرزِ عمل وہی ہوگا جو ماضی میں تھا اور ہو سکتا ہے کہ واپسی کے بعد وہ پھر کسی تناؤ کا سبب بنیں، دوسری جانب مسلم لیگ (ن) اور سیاسی حلقے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ نوازشریف کے جس بیانیہ کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے وہ تلخ حقائق ہیں، جس کے نتیجہ میں 2017ء تک اچھا بھلا چلتا پاکستان متاثر ہوا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی پر قانونی معاملات اور ان کی آمد پر گرفتاری کی باتیں ایک طے شدہ مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک میں انتخابی محاذ پر لیول پلینگ فیلڈ کو یقینی بنانا ہے اور نوازشریف کی وطن واپسی کے بعد یہ تحریک بھی زور پکڑ سکتی ہے کہ انتخابی عمل کو آزادانہ اور شفاف بنانے کیلئے پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو بھی ریلیف ملنا چاہئے تاکہ انتخابات کے انعقاد اور نتائج کے حوالے سے کوئی آواز نہ اٹھا سکے، لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہوگا ؟ فی الحال ایسا نظر نہیں آتا۔
نگران وزیراعظم اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مؤقف کو دیکھ لیا جائے تو وہ بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قوتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی ہوگی اور انتخابات آزادانہ اور شفاف ہوں گے، لیکن پی ٹی آئی کی لیڈر شپ اور دیگر گرفتار شدگان کے حوالے سے واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ ان کے انتخابات میں حصہ لینے کا انحصار ان کے خلاف مقدمات اور عدالتی فیصلوں پر ہے۔
ویسے بھی زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو 9 مئی کے واقعات نے پی ٹی آئی کو دفاعی محاذ پر لاکھڑا کیا ہے اور یہ معاملہ سیاسی نہیں ریاستی بن چکا ہے، لہٰذا فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ حکومت یا ریاستی ادارے مذکورہ واقعات میں ملوث افراد کو ریلیف دیں، اس بنا پر پی ٹی آئی خوف کا شکار ہے اور اس کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اگر اسے انتخابات میں حصہ لینے کا موقع نہ ملا تو انتخابات کی کوئی ساکھ نہیں ہوگی۔
لیکن یوں نظر آتا ہے کہ انتخابات کی آزادانہ حیثیت قائم کرنے کیلئے تحریک انصاف کو انتخابات لڑنے کی اجازت بھی ہوگی اور اسے اپنی پسند کا انتخابی نشان بھی مل جائے گا لیکن شاید اسے اپنی قیادت انتخابی محاذ پر نہ مل سکے کیونکہ اس جماعت کی لیڈر شپ پر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں، البتہ اس حوالے سے گیند تحریک انصاف کی کورٹ میں ہے کہ اسے دیکھنا ہوگا کہ انتخابی میدان میں کیسے اترنا ہے اور حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔
ویسے تو اس کے سامنے مسلم لیگ (ن) کی مثال موجود ہے کہ نوازشریف کو ملنے والی عدالتی سزا کے باوجود ان کی جماعت نے انتخابات میں حصہ لیا اور اس کے نتیجہ میں نہ صرف وہ ملک میں دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری بلکہ سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں وہ اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی اور اسی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے آئینی عمل کے نتیجہ میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف وزیراعظم بھی بنے، لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ انتخابی عمل میں عام جماعتوں کو حصہ دار بنانے کے آپشن کا تحریک انصاف فائدہ اٹھا پاتی ہے یا نہیں۔
جہاں تک ملک میں تحریک انصاف کے ساتھ کسی ڈیل یا ڈھیل کا سوال ہے تو فی الحال اس کے امکانات نظر نہیں آ رہے، البتہ انتخابات کے حوالے سے ایک بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ بیانات اور اعلانات کے باوجود عوامی سطح پر ایسا ماحول نظر نہیں آ رہا کہ کہا جا سکے کہ سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں اُتر چکی ہیں، اس کی بڑی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور خصوصاً بجلی، پٹرولیم اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے۔
مہنگائی زدہ عوام میں پیدا شدہ ردعمل پر کوئی بھی جماعت اُن کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، بڑا سوال یہی ہے کہ کس کارکردگی رپورٹ کے ساتھ وہ عوام کے پاس جائیں؟ اس میں زیادہ پریشانی مسلم لیگ (ن) کو ہے جس کا لیڈر پاکستان آ رہا ہے اور لاہور جیسے شہر میں جس کیلئے مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے بہت کچھ کیا، وہاں بھی استقبال کا ماحول نظر نہیں آتا، ایسا کیوں ہے؟ یہ خود( ن) لیگ کیلئے لمحۂ فکریہ ہے، اگرچہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ لاہور اور نوازشریف میں ایک مخصوص تعلق ہے، کیا وہ استقبال میں بروئے کار آئے گا، یہ دیکھنا ہوگا۔