عام انتخابات، بے یقینی کیوں؟

Published On 12 October,2023 11:51 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) جوں جوں عام انتخابات کے دن قریب آ رہے ہیں غیر یقینی صورتحال کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کے ٹائم فریم کے اعلان کے باوجود شہرِ اقتدار میں اب بھی چہ میگوئیاں سننے کو ملتی ہیں کہ ملک میں انتخابات کا ماحول بنتا نظر نہیں آرہا۔

یہ سوال بھی سننے کو ملتا ہے کہ برطانیہ سے سعودی عرب کیلئے اُڑان بھرنے والے میاں نواز شریف کیا واقعی چار برس بعد وطن واپس آہے ہیں؟ ملک کو درپیش چیلنجز اور بحرانوں سے نمٹنے میں نگران حکومت کو بلاشبہ بہت سی کامیابیاں ملی ہیں، یہ کامیابیاں بھی سوال اُٹھا رہی ہیں کہ جب ریاست اور نگران حکومت بہترین انداز میں مسائل سے نبردآزما ہیں تو ایسے میں کیا فوری انتخابات ان پالیسیوں کے تسلسل میں خلل نہیں ڈالیں گے؟ یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ جب نگران حکومت ڈیلیور کر رہی ہے تو ایسے میں ایک نئے ایڈونچر کی کیا ضرورت ہے ؟ مولانا فضل الرحمٰن سمیت کچھ جماعتیں موسم سرما کے عروج پر انتخابات کو نا قابلِ عمل قرار دے رہی ہیں۔

اگر موسم کی شدت کی بات کی جائے تو ماضی کے انتخابات پر نظر ڈالنے سے صورتحال واضح ہو جائے گی، 1970ء سے لے کر 2018ء تک ہونے والے سات انتخابات ایسے ہیں جو اکتوبر سے فروری کے درمیان ہوئے، 1970ء میں ہونے والے انتخابات سردیوں کے عروج یعنی 18 دسمبر کو منعقد ہوئے، 1977ء کے انتخابات 21 مارچ، 1988ء کے انتخابات 16 نومبر، 1990ء کے انتخابات 24 اکتوبر، 1993ء کے انتخابات 6 اکتوبر، 1997ء کے انتخابات تین فروری، 2002 ء کے انتخابات 10 اکتوبر، 2008ء کے انتخابات 18 فروری کو جبکہ اس کے بعد 2013ء اور 2018ء کے انتخابات سخت گرمی یعنی مئی اور جولائی کے مہینوں میں منعقد ہوئے۔

یوں موسم کی شدت کبھی بھی پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی، دہشت گردی بھی ماضی میں کبھی انتخابات کے انعقاد کو نہیں روک سکی، 2008ء اور 2013ء میں دہشت گردی کی لہر عام انتخابات کے انعقاد کے راستے میں روڑے نہ اٹکا سکی، ماضی میں جب بھی انتخابات ہوئے ان کے انعقاد سے قبل قیاس آرائیاں اور افواہیں جنم لیتی رہیں مگر پاکستان میں انتخابات کا آئینی عمل جاری رہا۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک ظہرانے کے دوران سینئر صحافیوں کی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی سے تفصیلی گفتگو ہوئی جس میں انہوں نے واضح طور پر بتایا کہ نگران حکومت الیکشن کمیشن کے بتائے ہوئے ٹائم فریم کو ذہن میں رکھ کر چل رہی ہے، انتخابات میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں، موجودہ نگران حکومت طویل عرصے کیلئے نہیں آئی، روز مرہ کے امور سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کر رہی نہ ہی ایسی کوئی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ اس نے آئندہ کئی برس چلنا ہے، ملک کو درپیش چیلنجز سے آئندہ آنے والی منتخب حکومت کو نمٹنا ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہیں کر رہی جو اس کے دائرہ اختیا ر میں نہیں آتا۔

جہاں تک سوال ہے کہ انتخابات کے بعد پالیسیوں کا تسلسل کیسے جاری رہے گا تو SIFCسمیت جتنے بھی معاشی پالیسیوں سے متعلق معاملات ہیں ان کی ذمہ داری ریاست نے لے رکھی ہے، جو حکومتوں کی تبدیلی کیساتھ متاثر نہیں ہوگی، اب کوئی بھی ایسا آئینی، قانونی اور انتظامی عذر سامنے نہیں ہے جس کے باعث 2024ء کے آغاز میں ہونے والے عام انتخابات التوا کا شکار ہوں، اعلیٰ عدالتیں بھی انتخابی عمل کے غیر معینہ مدت کیلئے التوا کی کسی صورت توثیق نہیں کریں گی۔

اس میں بھی کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف چار برس بعد وطن واپس آ رہے ہیں، میاں نواز شریف پاکستان پہنچنے سے قبل سعودی عرب اور یو اے ای کیلئے روانہ ہو چکے ہیں، سعودی عرب میں ان کی شاہی خاندان کی اہم شخصیات سے ملاقاتوں کی قیاس آرائیاں ضرور ہو رہی ہیں مگر( ن) لیگ کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی جا رہی، وہ عمرہ کرنے کے بعد کچھ وقت اپنے بیٹے حسین نواز کیساتھ گزاریں گے اور ان کا زیادہ وقت مدینہ منورہ میں گزرے گا۔

پاکستان روانگی سے دو تین روز قبل وہ یو اے ای پہنچیں گے اور متحدہ عرب امارات سے 21 اکتوبر کو پاکستان آئیں گے، 21 اکتوبر کو لاہور ایئرپورٹ پر میاں نواز شریف کے ساتھ حکومتی سلوک آنے والے دنوں کا سیاسی منظر نامہ واضح کر دے گا، ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کا پاکستان آنے سے قبل سعودی عرب اور یو اے ای جانے کا مقصد حکومت میں آنے کی صورت میں دوست ممالک سے پاکستان کیلئے اقتصادی تعاون حاصل کرنا ہے، (ن) لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف مینار پاکستان جلسے کی تقریر میں عوامی مسائل، مہنگائی، بے روز گاری، غربت اور لوگوں کی مشکلات کا بیانیہ لے کر چلیں گے اور مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے تجاویز دیں گے۔

اگرچہ میاں نواز شریف کی واپسی کے بعد ان کیلئے عوام کی عدالت میں جانے کا چیلنج اتنا آسان نہیں ہوگا مگر ان کیلئے یہ آسانی ضرور ہے کہ ان کے سب سے بڑے حریف جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، اس کی تمام لیڈر شپ یا تو روپوش ہے یا جماعت سے اپنی راہیں جدا کر چکی ہے، اس سب کے باوجود اگر بلے کا انتخابی نشان بیلٹ پیپر پر موجود رہا تو وہ شیر، تیر اور ان کے ماضی کے اتحادیوں کیلئے دردِ سر بن سکتا ہے، بلے کے انتخابی نشان کے مستقبل سے متعلق دو کیسز الیکشن کمیشن میں فیصلے کے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں جو آئندہ چند ہفتوں میں کسی بھی وقت آ سکتے ہیں۔

ایک کیس میں بروقت انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے سے تحریک انصاف کو بلے کے نشان سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں جبکہ استحکام پاکستان پارٹی بلے کے نشان پر نظریں جمائے بیٹھی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں استحکام پاکستان پارٹی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے، کسی بھی جماعت کیلئے اس کا انتخابی نشان بیلٹ پیپر سے نکلنے کے بعد اس کیلئے انتخاب لڑنا تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے، ایسے میں میاں نواز شریف کیلئے وطن واپس آ کر اپنے سیاسی حریفوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے سب سے بڑا چیلنج عوام کو اس بات پر قائل کرنا ہوگا کہ ان کے پاس ملک کو موجودہ معاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے کوئی حل موجود ہے۔