لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) عزت و شان کے اعتبار سے پہلی مسجد حرام ہے، پھر مسجد نبوی اور تیسرے نمبر پر مسجد اقصیٰ ہے، تینوں مساجد کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور پھر آقا کریم ﷺ نے ان کی خصوصی عظمت کو بیان فرمایا، نبی کریم ﷺ نے معراج کو جاتے ہوئے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت فرمائی، یہ شرف صرف اسی مسجد کو حاصل ہے کہ بیک ِ وقت تمام انبیاء کرام علیہ السلام نے اس مسجد میں باجماعت نماز ادا کی۔
بیت المقدس کی سر زمین جہاں مسجدِ اقصیٰ موجود ہے، ایسی دھرتی ہے جو ہزاروں انبیاء کا مسکن رہی ہےاور سینکڑوں انبیاء کرام کے بچپن کا گہوارہ ہے اور یہیں اللہ تعالیٰ نے بہت سارے انبیاء کو تاج ِ نبوت سے سرفراز فرمایا، یہاں پر انبیاء کے ہاتھوں ہزاروں معجزات رونما ہوئے، حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اسی جگہ پر بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی خوشخبری ملی اور حضرت مریم علیہ السلام کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی عطا ہوئے، یہ مسجد کئی دفعہ آباد ہوئی اور کتنی دفعہ اسے اغیار نے تباہ و برباد کیا۔
مسجد اقصیٰ ، مدینۃ القدس کے دامن کوہ میں بنائی گئی، اس کا نام بیت المقدس ہے، یعنی پاک کرنے والا گھر جس میں گناہوں سے پاکی حاصل کی جاتی ہے، یہ پہلا قبلہ اور تیسرا حرم شریف ہے اور رحمت عالم محمد ﷺ کے سفر معراج کا راستہ ہے، ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن کے علاوہ کسی مسجد کی طرف ثواب وتعظیم کی نیت سے سفر نہیں کیا جا سکتا۔
مسجد اقصیٰ کا مختصر تعارف
روئے زمین پر مسجد حرام (خانہ کعبہ) کے بعد یہ دوسری قدیم ترین مسجد ہے، جہاں آج بھی الحمداللہ پنج وقتہ نماز باجماعت کے علاوہ جمعہ، عیدین اور تراویح، تہجد، اعتکاف اور درس و تدریس کا اہتمام ہے، یہ مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، فلسطین کی پاک سر زمین انبیاء کرام کا مسکن رہا ہے، اسی وجہ سے اسے سرزمین انبیاء بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے چپہ چپہ پر انبیاء کرام علیھم السلام کے نشانات موجود ہیں، گزشتہ قوموں کے آثار یہاں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔
اس ارض مقدس کا مشہور اور قدیم شہر بیت المقدس ہے جسے ’’ القدس ‘‘ اور یروشلم بھی کہا جاتا ہے، یہ شہر دو حصوں میں منقسم ہے، ایک پرانا شہر ہے، دوسرا نیا شہر ہے، پرانے شہر کے چاروں طرف اونچی دیوار وں کا احاطہ ہے اور اسی شہر میں تمام مقدس مقامات پائے جاتے ہیں، مسجد اقصیٰ کے اطراف 1600 میٹر لمبی پتھر کی دیوار ہے، اس کے اندر 9 دروازے ہیں۔
گنبد صخرہ
اس کی تعمیر پانچویں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے 68ھ بمطابق 688ء میں شروع کروائی جو چار سال میں پایہ تکمیل کو پہنچی، گنبد صخرہ زمین سے 30 میٹر بلند ہے، یہ دو منزلہ عمارت ہے جو آٹھ کونوں والی ہے، ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ کی دوری 20 میٹر اور اونچائی 15 میٹر ہے، اسی صخرہ کے نیچے غار انبیاء علیھم السلام ہے، جہاں پہنچنے کیلئے 11 سیڑھیاں ہیں۔
مسجد اقصیٰ کی تعمیر
حضرت عمرؓ 14ھ مطابق 636 ء میں اپنے دور خلافت میں فتح کے بعد یہاں تشریف لائے، حضور ﷺ کے سفر معراج کی منزل کو تلاش کیا، اپنے مبارک ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کیا، وہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور وہاں حضرت بلال ؓکو اذان کا حکم دیا، پھر خود نماز پڑھائی، یہاں سادہ مستطیل لکڑی کی مسجد تعمیر ہوئی، مسجد اقصیٰ کی لمبائی 80 میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے، 23 مرمری اونچے ستونوں اور 49 چوکور چھوٹے ستونوں پر کھڑی یہ عمارت 705 ء میں مکمل ہوئی، دروازوں پر سونے اور چاندی کی چادریں چڑھی ہوئی تھیں، مسجد کے گیارہ گیٹ ہیں، جن میں سے سات شمال میں ہیں، پانچ بار اس کی تعمیر ہوئی، موجودہ تعمیر 1035ء کی ہے، اس مسجد میں 50 ہزارمسلمان نماز پڑھ سکتے ہیں۔
جولائی 1099ء کو بیت المقدس پر عیسائی حملہ آوروں کا قبضہ ہوا، ہزار ہا مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا اور مسجد کو گرجا میں تبدیل کر دیا گیا، 12 اکتوبر 1187ء کو وہ عظیم الشان موقع آیا، جب مسجد اقصیٰ عیسائی قابضین سے واپس مل گئی، یہ عظیم کامیابی بطل ِ جلیل سلطان صلاح الدین ایوبی کے شہر فتح کرنے پر حاصل ہوئی۔
عظیم الشان نادر منبر سلطان صلاح الدین نے حلب میں تیار کرا کے مسجد میں نصب کیا، 15 اگست1967 ء بڑے کرب کا دن تھا جب ایک آسٹریلوی یہودی سیاح مائیکل روہن نے اسرائیلی حکومت کی ایماء پر مسجد اقصیٰ میں آگ لگا دی، جس سے جنوب مشرق سمت کی چھت شہید ہوگئی اور سلطان کا وہ نادر یادگار منبر جل کر راکھ ہو گیا۔
مسجد اقصیٰ کی فضلیت
مسجد اقصیٰ کی فضلیت، تعمیر وتاریخ قرآن وسنت کی روشنی میں حسب ذیل ہے، قرآن پاک میں چار مقامات پر سر زمین شام کو بابرکت زمین کہا گیا ہے، نزول قرآن کے وقت ملک شام، موجودہ شام سے بہت وسیع تھا، موجودہ فلسطین بھی اس کا حصہ تھا، مسجد اقصیٰ شام کی اسی بابرکت سر زمین میں واقع ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے اس قوم کو جس کو کمزور بنایا گیا تھا، اس سر زمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنایا کہ جس سر زمین میں ہم نے برکت رکھ دی ہے‘‘(الاعراف:137)۔ اس آیت مبارکہ میں حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل کی اس عظیم سلطنت کی طرف ارشاد ہے جو کہ اس زمانے کے شام اور اس کے گردو نواح پر مشتمل تھی۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے ان کو (یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام) اور حضرت لوط علیہ السلام کو نجات دی ایک ایسی سر زمین کی طرف کہ جس میں ہم نے تمام جہاں والوں کیلئے برکت رکھ دی ہے (انبیاء :71)، اس آیت مبارکہ کے الفاظ’’ العالمین‘‘ سے واضح ہوتا ہے کہ سر زمین فلسطین و شام کی برکات کسی خاص جماعت، قوم یا مذہب کے ماننے والوں کیلئے نہیں ہے جیسا کہ یہود کا یہ خیال ہے کہ اس سر زمین کی برکات ان کیلئے مخصوص ہیں، بلکہ اس سر زمین کی برکت تمام اقوام ، مذاہب اور جماعتوں کیلئے ہیں، اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’حضرت سلیمان کیلئے ہم نے تیز و تند ہوا کو مسخر کر دیا تھا، جو ان کے حکم سے اس سر زمین کی طرف چلتی تھی کہ جس میں ہم نے برکت رکھ دی ہے‘‘( الانبیائ:81)
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ ہم نے ان (یعنی قوم سبا ) کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان کہ جن میں ہم نے برکت رکھ دی ہے، کچھ نمایاں بستیاں بنائی تھیں‘‘( سبا: 18 )۔ اس آیت مبارک کے الفاظ ’’القری‘‘ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ برکت صرف فلسطین کی بستی میں نہیں رکھی گئی بلکہ ان تمام بستیوں میں رکھی گئی ہے جو کہ سر زمین شام میں واقع ہیں۔
مسجد اقصیٰ کے ارد گرد کی سر زمین بھی بابرکت ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے‘‘ (بنی اسرائیل :1)، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے ساتھ ساتھ اس کے اردگرد سر زمین یعنی فلسطین و شام کا علاقہ بھی بابرکت ہے۔
مسجد اقصیٰ ارض مقدسہ میں ہے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں ہے: ’’اے میری قوم کے لوگو! داخل ہو جاؤ اس مقدس سر زمین میں کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ( المائدہ: 21)۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک ارض مقدسہ سے مراد شام ہے۔
بیت اللہ کے بعد دوسری مسجد
مسجد اقصیٰ روئے زمین پر بیت اللہ کے بعد دوسری مسجد ہے کہ جس کو عبادت الٰہی کیلئے تعمیر کیا گیا، حضرت ابو ذر غفاری ؓسے روایت ہے: میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ اس روئے زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپﷺ نے جواب دیا: مسجد حرام ، میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد کونسی مسجد تعمیر کی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ، میں نے عرض کیا: ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے تو آپﷺ نے فرمایا: چالیس سال (سنن نسائی:690)۔
مسجد اقصیٰ کی طرف شدر حال کی مشروعیت
مسجدا قصیٰ ان تین مساجد میں شامل ہے کہ جن کا تبرک حاصل کرنے کیلئے یا ان میں نماز پڑھنے کیلئے یا ان کی زیارت کیلئے سفر کو مشروع قرار دیا گیا، آپ ﷺکا ارشاد ہے : تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا قصد کر کے سفر کرنا جائز نہیں ہے میری اس مسجد کا یعنی مسجد نبوی کا، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کا (صحیح بخاری: 1189)۔
انبیاء نے تعمیر کیا
مسجد اقصیٰ ان مساجد میں سے ہے جسے جلیل القدر انبیاء نے تعمیر کیا، طبرانی کی ایک روایت کے الفاط ہیں: حضرت داؤد نے بیت المقدس کی تعمیر کیلئے بنیادیں رکھیں، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں مکمل کرواؤں گا(فتح الباری)۔
مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی فضلیت
صحیح حدیث میں مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے، حضرت عبداللہ بن عمر اللہ ؓکے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں:حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے انہوں نے تین چیزیں مانگیں، وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کرے جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کیلئے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا، جس دن اس کی ماں نے اسے جنا (سنن نسائی: 693)
مسجد اقصیٰ میں دجال نہیں داخل ہوگا
مسجداقصیٰ ان چارجگہوں میں سے ہے جہاں دجال داخل نہیں ہو سکے گا اور وہ ہیں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، مسجد اقصیٰ اور مسجد طور۔ حضرت جنادہ بن امیہ دوسیؓ بیان کرتے ہیں: میں اور میرا دوست ایک صحابی کے پاس گئے اور عرض کیا: ہمیں ایسی حدیث سنائیے ، جو آپ ؓنے رسول اللہ ﷺ سے خود سنی ہو، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں، تین بار ایسا ہی فرمایا، میری امت کے لوگو! وہ تم میں نکلے گا۔ وہ گھنگھریالے بالوں والا اور گندمی رنگ کا ہوگا، اس کی بائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی،(یعنی نہیں ہوگی) اس کے پاس جنت اور جہنم ہوگی۔ اس کے پاس پانی کی نہر اور روٹیوں کا پہاڑ ہوگا، اسے اتنی طاقت و قوت دے دی جائے گی کہ ایک جان کو قتل کر کے اسے زندہ بھی کر سکے گا، وہ آسمان سے بارش برسائے گا، لیکن زمین سے کوئی چیز نہیں اُگے گی، وہ زمین میں چالیس دن ٹھہرے گا، یہاں تک کہ ہر جگہ پہنچ جائے گا، وہ چار مسجدوں کے قریب بھی نہیں آسکے گا: مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد مقدس اور کوہ طور۔
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔