لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) اسلام ایک کامل دستور حیات ہے، جو ہر قدم پر کلمہ گو کی مکمل اور سچی رہنمائی کرتا ہے، دین اسلام جہاں مسلمانوں کو اصول عبادت اور طریقہ بندگی سکھاتاہے، وہیں کسب معاش اور طلب رزق کے بھی آداب اور طورطریقے سکھاتا ہے، تاکہ ان امور کو مدنظررکھ کر حلال روزی کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
اسلام میں رزق حلال کو ایسی اہمیت حاصل ہے کہ ایمان لانے کے بعد تمام احکام پر عمل پیرا ہونے کے باوجود کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت نہیں پاتا، جب تک کہ ان کا کھانا پینا حلال نہ ہو، اسلام اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ایک پاکیزہ نظام ہے یہ مسلمانوں کو حرام و ناجائز رزق سے بچنے اورحلال و حرام میں تمیز کرنے کا حکم دیتا ہے، حلال کمانا اور حرام سے بچنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا نماز، روزہ اور دینی فرائض پر عمل پیرا ہونا۔
اسلام مختلف اعمال اور اصولوں کے ذریعے انسانوں کو رزق حلال کمانے کی رہنمائی فراہم کرتا ہے، اس مضمون میں رزق حلال کی اہمیت اور دنیاوی و اخروی فوائد و ثمرات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں اختصار سے بیان کیا جاتا ہے۔
توکل علی اللہ
اسلام میں ایمان اور توکل علی اللہ کو بہت اہمیت دی گئی ہے، ایمان کے ساتھ اپنی کاوشوں میں توکل کرنا اہم ہے اور ایک مسلمان کو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نہ میں اُن سے رِزق (یعنی کمائی) طلب کرتا ہوں اور نہ اس کا طلب گار ہوں کہ وہ مجھے (کھانا) کھلائیں، بیشک اللہ ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے (اسے کسی کی مدد و تعاون کی حاجت نہیں)‘‘ (الذاریات 57۔58)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو جانتا ہے‘‘(ہود:6)، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر اس نے تمہیں رزق بخشا، پھر تمہیں موت دیتا ہے، پھر تمہیں زندہ فرمائے گا، کیا تمہارے (خود ساختہ) شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو ان (کاموں) میں سے کچھ بھی کر سکے، وہ (اللہ) پاک ہے اور ان چیزوں سے برتر ہے جنہیں وہ (اس کا) شریک ٹھہراتے ہیں (الروم: 40)
حصولِ رزق: جدوجہد اور محنت کا حکم
اللہ تعالیٰ نے دن کی تخلیق اس لیے کی کہ انسان اس میں روزی کما کر رزق کا اہتمام کر سکیں، قرآن مجید میں ہے: ’’ہم نے دن کو (کسبِ) معاش (کا وقت) بنایا (ہے)‘‘ (النبا: 12)، دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے : ’’اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اوردن میں اس کا فضل (روزی) تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (القصص: 73)۔
انسان کو روزی اور رزق کے حصول کیلئے جدوجہد کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم و مسخر کر دیا، سو تم اس کے راستوں میں چلو پھرو اور اس کے (دئیے ہوئے) رزق میں سے کھاؤ، اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘(الملک:15)۔ عبادات کی ادائیگی کے بعد اپنی ذات اور اپنے زیرکفالت افراد کیلئے خورونوش اورآرام و سکون مہیا کرنے کیلئے گھر سے باہر نکلنے کا بھی حکم دیا: ’’پھر جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘(الجمعہ10:62)
حلال کمائی کیلئے محنت
اللہ تعالیٰ نے کمائی کیلئے جدوجہد اور محنت کرنے کا حکم دیا ہے، اس کامطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ جو چاہیے کمائے، جیسے چاہیے کمائے، جہاں سے چاہے کمائے بلکہ اس کیلئے ایک دائرہ کار بنایا اور ایک حدبندی کر دی تاکہ اس کے اندر رہ کر رزق، حلال ذرائع سے حاصل کیا جائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہیں کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘ (البقرہ:168)۔
حصولِ رزق: اچھا طریقہ اختیار کرنا
اہل ایمان کو حلال اور پاکیزہ چیزوں کو حاصل کرنے کاحکم دیا، اس لیے پوری کوشش اور محنت رزق حلال کیلئے ہی ہونی چاہیے اور وہ بھی جائز ذرائع اور وسائل سے۔ قرآن مجید میں ہے: ’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ، جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرو، اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو‘‘ (البقرہ: 172)
اللہ تعالیٰ نے نہ صرف عام لوگوں اور اہل ایمان کو بلکہ انبیاء کرام اور رسل عظام کو حلال اورپاکیزہ کو روزی بنانے کا حکم دیا ہے، قرآن مجیدمیں ہے: ’’اے رسولو ! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرتے رہو، بیشک تم جو بھی کام کرتے ہو میں اس کو خوب جاننے والا ہوں‘‘ (المومنون :51 )۔
اس آیت میں پاک چیزوں سے کھانے کا حکم دیا گیا ہے اور پاک چیزوں سے مراد حلال چیزیں ہیں اور سب سے زیادہ حلال چیز وہ ہے جس کو انسان نے اپنے کسب اور محنت سے حاصل کیا ہو رزق حلال کے بارے چنداحادیث حسب ذیل ہیں :
حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اس نے بکریاں چرائی ہیں، آپﷺ کے اصحاب نے پوچھا اور آپﷺ نے فرمایا : ہاں میں چند قیراط کے عوض مکہ والوں کی بکریاں چراتا تھا‘‘ (صحیح بخاری:2262)، قیراط سے مراد درہم یا دینار کا ایک جزو ہے۔
حضور اکرمﷺ نے فرمایا: میں جس چیز کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ تمہیں جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے تو تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور جس چیز کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ تمہیں جنت سے دور اور جہنم کے قریب کرنے والی ہے تو تمہیں اس سے منع کرتا ہوں، بے شک روح الامین حضرت جبرائیل علیہ السلام نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ کوئی جان اس وقت تک نہیں مرے گی جب تک وہ اپنا رزق پورا نہ کر لے اگرچہ وہ اس کو دیر سے ملے۔پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور رزق کا حصول اچھے طریقے سے کرو۔
آخر میں ارشاد فرمایا:رزق میں سے کسی شے کا دیر سے ملنا تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے رزق تلاش کرنے لگو کیونکہ جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے(یعنی ثواب وغیرہ)اس تک اس کی نافرمانی سے نہیں پہنچا جا سکتا‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ:34332)۔
حضرت مقدام ؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’کسی شخص نے بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر طعام نہیں کھایا اور اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے‘‘ (صحیح بخاری:2072)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص لکڑیاں کاٹ کر اس کا گٹھا اپنی پشت پر لاد کر لائے وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے، وہ اس کو دیں یا منع کردیں‘‘ (صحیح بخاری:2074 )
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اے لوگو ! بیشک اللہ طیب ہے اور وہ طیب اور طاہر چیز کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور بیشک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسی چیز کا حکم دیا ہے جس چیز کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے،اس نے فرمایا :رسولو ! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرتے رہو، بیشک تم جو بھی کام کرتے ہو میں اس کو خوب جاننے والا ہوں(المؤمنون:51 ) اور فرمایا :اے ایمان والو ! ان پاک چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تم کو دی ہیں‘‘ (البقرہ: 172)۔
پھر آپﷺ نے اس شخص کا ذکر فرمایا جو سفر طے کر کے آتا ہے اس کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہوتے ہیں وہ آسمان کی طرف دونوں ہاتھ پھیلا کر دعا کرتا ہے: اے میرے رب ! اس کا کھانا حرام ہوتا ہے، اس کا پینا حرام ہوتا ہے، اس کا لباس حرام ہوتا ہے اور اس کی غذا حرام ہوتی ہے تو اس کی دعا کہاں سے قبول ہوگی ؟ (صحیح مسلم : 1015)
حضرت عبدالوہاب بن ابی حفصؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام شام کو روزے سے تھے، افطار کے وقت ان کے پینے کیلئے دودھ لایا گیا، انھوں نے پوچھا تمہارے پاس یہ دودھ کہاں سے آیا ؟ بتایا گیا:یہ ہماری بکریوں کا دودھ ہے، آپﷺ نے پوچھا اس کی قیمت کہاں سے آئی، انہوں نے کہا :اے اللہ کے نبی! آپﷺ یہ سوال کیوں کر رہے ہیں؟ فرمایا :اللہ تعالیٰ نے ہم رسولوں کی جماعت کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم پاک چیزوں سے کھائیں اور نیک عمل کریں‘‘ (شعب الایمان: 5385 )۔
رزق حلال کے فوائد و ثمرات
رزق حلال کا مطلب ہوتا ہے کہ انسان کا روزگار یا کمائی ایسی ہو جو اسلامی اصولوں اور قوانین کے مطابق ہو، جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق اور حلال ہو۔ رزق حلال کے فوائدو ثمرات حسب ذیل ہیں:
اخروی نجات کاذریعہ: اسلام میں رزق حلال کمانے کا طریقہ ایمانی اور معاشرتی طور پر بہت اہمیت کا حامل ہے، حلال رزق کمانا ایک شخص کو اخروی زندگی میں بھی بہتر بناتا ہے اور اس کی دنیا میں بھی کامیابی کا باعث بنتا ہے۔
اخلاقی اور معاشرتی فوائد: حلال رزق کمانے سے انسان معاشرتی اور اخلاقی طور پر بھی بہتر ہوتا ہے، اچھے اخلاق کے ساتھ رزق کمانے سے انسان معاشرتی تعلقات میں بھی محترم بنتا ہے اور عملی زندگی میں سکون وراحت حاصل کرتا ہے، حلال رزق کمانے سے انسان کو کامیاب زندگی کی ضمانت ملتی ہے، اچھا کردار، محنت، ایمان اور صداقت کے ساتھ حلال رزق کمانا انسان کو زندگی میں ترقی اور کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے۔
رزق حلال برکتوں کا باعث
حلال رزق کا مطلب ہے کہ انسان نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی حدود اور قوانین کا احترام کیا ہے، حرام کمائی سے بچنا ایمانی حیثیت میں بڑی برکتیں لاتا ہے اور دینی طور پر بھی انسان کو بہتر بناتا ہے۔
رزقِ حلال اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا حصول اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے، اسی بناء پر انفرادی، عائلی اور معاشرتی اخلاق بہترہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں رزقِ حلال کمانے، کھانے اور استعمال میں لانے کی توفیق عطافرمائے۔
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی میں منظور شدہ 35 آرٹیکلز بھی شائع ہو چکے ہیں۔