جھنڈوں کا جنگوں میں کردار

Published On 19 May,2025 11:17 am

لاہور: (خاورنیازی) جھنڈوں کی ابتدا بارے مورخین ابھی تک یکسو نہیں ہیں، تاہم دستیاب معلومات کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ قدیم مصری ثقافت اور میسوپوٹیمیا میں قبل از مسیح ادوار کے برتنوں اور استعمال کی دیگر اشیاء پر جھنڈوں کی تصاویر ملی ہیں، جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ زمانۂ قدیم میں بھی جھنڈوں کا استعمال رواج پا چکا تھا۔

ایسی ہی کچھ مثالیں زمانۂ قدیم میں یونان اور سلطنت فارس کے بادشاہوں کی بھی ملتی ہیں، جنہوں نے اپنی ذاتی شناخت کیلئے الگ جھنڈے بنا رکھے تھے، اس کے بعد تاریخ کی کتابوں میں بعد از مسیح ادوار، یعنی آج سے لگ بھگ دو ہزار سال پہلے کچھ ممالک میں باقاعدہ طور پر پرچموں کا ذکر ملتا ہے۔

دور حاضر میں تو پرچم کو کسی بھی ملک کی شناخت سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ قدیم زمانے میں جو مستند معلومات دستیاب ہیں ان کے مطابق جھنڈوں کا استعمال جنگوں میں ایک اہم پیغام یا علامت کے طور پر ہوتا تھا، قدیم دور میں دوران جنگ، جب تک کسی ملک کا پرچم سرنگوں نہیں ہو جاتا تھا جنگ جاری رہتی تھی۔

سعودی عرب دنیا کا شاید واحد ملک ہے جس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہیں ہوتا کیونکہ سعودی عرب کا جھنڈا کلمہ طیبہ والا جھنڈا ہے جو ہر مسلمان کیلئے مقدس اور باعث تکریم ہے، دور جدید میں تو جب کسی ملک میں کوئی غیر متوقع سانحہ وقوع پذیر ہو جائے تو فوری طور پر اس ملک کے قومی پرچم کو سرنگوں کر دیا جاتا ہے۔

گئے زمانوں میں جب جنگیں ’’منجنیق‘‘ کے بل بوتے جیتی جاتی تھیں، دشمن کی تنصیبات کو تباہ کرنا بنیادی ہدف ہوا کرتا تھا، جس کا اگلا اہم مرحلہ دشمن کے لہراتے پرچم کو فوراً سرنگوں کرنا ہوتا تھا، دشمن کا پرچم گرانا جہاں ایک فریق کی کامیابی تصور ہوا کرتی تھی وہیں اسے دوسرے فریق کی شکست سے تعبیر کیا جاتا تھا، گویا ایک پرچم ہی کسی جنگ کی فتح اور شکست کا اعلان کیا کرتا تھا۔

تاریخ کی کتابوں میں ایسے واقعات بھی رقم ہوئے ہیں جب کوئی سپاہی دوران جنگ زخمی ہو کر گرنے لگتا تو سب سے پہلے اپنا پرچم اپنے دوسرے ساتھی کے حوالے کرتا، تاکہ برسر جنگ ساتھیوں کو دور سے پرچم لہراتا ہوا نظر آتا رہے اور ان کے جوش و خروش میں کمی نہ آنے پائے، عرب قبائل میں جب بھی جنگیں ہوتیں لڑنے والے سپاہی اپنی نظریں مسلسل اپنے پرچم پر مرکوز رکھتے، جب تک پرچم میدان میں لہراتا نظر آتا رہتا وہ لڑتے رہتے، پرچم کے گرنے کو پسپائی سے تعبیر کیا جاتا تھا، جس قبیلے کا پرچم گر جاتا اس کے جنگجو شکست کو تسلیم کرتے ہوئے منتشر ہو جایا کرتے تھے۔

روایات میں آتا ہے کہ کعبۃ اللہ کی خدمت کیلئے جب ذمہ داریاں سونپنے کا مرحلہ آیا تو ایک خاندان کے پاس کعبہ کی چابیاں آئیں، ایک خاندان کو آب زم زم کی ذمہ داریاں سونپی گئیں جبکہ قریش مکہ قبیلے کے حصے میں پرچم اٹھانے کی ذمہ داریاں آئیں، قریش مکہ کے پرچم کا رنگ ان دنوں کالا ہوا کرتا تھا، جسے ’’عقاب‘‘ کہا جاتا تھا۔

جھنڈوں کے حوالے سے مختلف روایات
دنیا بھر میں جھنڈوں کے حوالے سے بہت ساری روایات صدیوں سے رائج چلی آ رہی ہیں، جن میں سے ایک الٹا جھنڈا لہرانے کی روایت ہے جس کا مطلب خطرے کی نشان دہی یا مشکل صورتحال کی وجہ سے مدد کی اپیل ہوتی ہے، گئے زمانوں میں جب دوران جنگ کسی مورچے پر اسلحہ ، خوراک یا کسی بھی قسم کی مدد درکار ہوتی تو اپنے مورچے یا ٹھکانے کے باہر پرچم کو الٹا لٹکا دیا جاتا تھا۔

الٹا پرچم لہرانے کی روایت صرف جنگوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بعض ملکوں کے رہائشی علاقوں میں اپنے پڑوسیوں، محلے داروں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد طلب کرنے کیلئے گھروں کی چھتوں یا داخلی دروازوں پر الٹا پرچم لہرا کر مدد طلب کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، کچھ ملکوں بارے تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بیشتر لوگ ہائی ویز یا ویرانوں میں اپنی گاڑی خراب ہونے کی صورت میں الٹا پرچم لہرا کر مدد کیلئے اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کا رواج عام ہے۔

علامت، شناخت اور پیغام رسانی
قدیم زمانے میں جنگوں کے دوران پرچموں کو مختلف رنگوں کے ساتھ مختلف پیغامات کیلئے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے، اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ عالمی طور پرچم کو ایک علامت، شناخت اور پیغام رسانی کے طور پر اب بھی قابل عمل سمجھا جاتا ہے۔

پرچم کی بناوٹ و ڈیزائن
جہاں تک کسی بھی ملک کے پرچم کی بناوٹ اور ڈیزائن کا تعلق ہے تو اس ملک کے پرچم کے رنگ اس ملک کی ثقافت، مذہب اور وہاں کے نظریے کی ترجمانی کرتے ہیں، مثال کے طور پر وطن عزیز پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کا سبز رنگ یہاں کے باسیوں کے مذہب اسلام کی عکاسی کرتا ہے جبکہ سفید رنگ یہاں بسنے والی دیگر اقوام کے مذاہب کے ساتھ امن اور بھائی چارے کی ترجمانی کرتا ہے، اسی طرح آزاد کشمیر کے جھنڈے کا سبز رنگ میں چاند ستارہ اسلام اور پاکستان کے ساتھ وابستگی کی علامت کی ترجمانی کرتا ہے جبکہ اس میں چار سفید پٹیاں ریاست کے چار بڑے دریاؤں کی عکاسی کرتی ہیں۔

کینیڈا کے پرچم کے سرخ رنگ کو دوسری جنگ عظیم میں قربانیاں دینے والوں سے منسوب کیا گیا ہے جبکہ سفید رنگ کو امن پسندی کی علامت سے تعبیر کیا گیا ہے، کینیڈا کے پرچم کو میپل لیف سے مشابہت دی گئی ہے جو ان کی ثقافت کی ترجمانی کرتا ہے، نیپال کے پرچم کے اوپر چاند جبکہ نیچے سورج بنایا گیا ہے اور ان کے گرد نیلے رنگ کا حاشیہ بنا ہوا ہے جو امن کا عکاس ہے، سرخ رنگ ان کے ایک قومی پھول کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔

سفید جھنڈا امن کی علامت
پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران یہ خبر نظر سے گزری کہ انڈیا نے اپنے کچھ علاقوں میں سفید پرچم لہرا دیئے، کسی جنگ یا ہنگامی حالت میں سفید پرچم لہرانے کا مقصد جنگ میں اپنی شکست تسلیم کرنا، جنگ ختم کرنا یا امن کی اپیل کے معنی میں لیا جاتا ہے۔

سفید جھنڈا تاریخ اسلام میں امن اور جنگ دونوں صورتوں میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے، روایت میں آیا ہے کہ کفار مکہ سے غزوۂ بدر کے موقع پر سفید جھنڈا ہی اسلامی فوج کا بنیادی علم تھا، عالمی سطح پر آج بھی سفید جھنڈا امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

خاور نیازی لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔