لاہور: (دنیا نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے میاں اسلم اقبال کے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کو حراساں کیے جانے کے خلاف درخواست پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے درخواست پر سماعت کی، اس دوران سرکاری وکیل نے کہا کہ وہاں پر موجود ریٹرننگ افسر کو درخواست دینی چاہیے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر یہ کہتے ہیں کہ انہیں اس لیے حراست میں لیا گیا تاکہ کاغذات جمع نہ کروا سکیں تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو ہی درخواست دی جا سکتی ہے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ جی ہم الیکشن کمیشن کو بھی درخواست دیں گے، ایس ایچ او کہتا تھا کہ اوپر سے آرڈر کروائیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر اس قسم کے الزامات آئیں تو الیکشن کمیشن کی کیا ذمہ داری ہے؟ اگر ان کی بات سچی ہے تو کیا پولیس افسران پر ایف آئی آر ہونی چاہیے؟
جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ میں اس حوالے سے کوئی کمنٹ نہیں کر سکتا، اگر ان کو حبس بے جا میں رکھا گیا ہے تو انہیں پولیس کے پاس جانا چاہیے۔
عدالت نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کے پاس شکایت آئی تو الیکشن کمیشن نے کیا ایکشن لیا یہ تو ہم آپ سے پوچھیں گے۔
عدالت نے مزید کہا کہ تجویز اور تائید کنندہ کو ریٹرننگ افسران کے سامنے پیش ہونے سے روکنا الیکشن کی شفافیت پر اثر انداز نہیں ہو گا؟ الیکشن کمیشن کے پاس کونسا پیمانہ ہے صاف و شفاف الیکشن کو جانچنے کا؟
جس پر وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کے لیے ریٹرننگ آفیسر مقرر کیے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔