اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، عدالتی معاون منظور ملک نے دلائل پیش کیے۔
عدالتی معاون منظور ملک کا کہنا تھا کہ 24 ستمبر 1977ء کو پہلی سماعت ہوئی اور اگلی سماعت پر شواہد طلب کر لیے گئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ذوالفقار بھٹو کے وکیل پیش ہوئے تھے؟ منظور ملک نے کہا کہ پہلی سماعت پر وکیل پیش نہیں ہوئے تھے، قانونی عمل کی کھلی خلاف ورزی ہوئی۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ چارج میں قتل کی سازش کے عناصر تو ڈالتے، کچھ تو بتائیں پرائم منسٹر ہاؤس میں یہ سازش کہاں ہوئی؟ میں تو حیران ہوں، اس کیس میں تو قتل کی بنیاد سازش کہی گئی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر کسی کے خلاف فرد جرم کیلئے مواد ناکافی ہو تو کیا ہو گا؟ اس پر منظور ملک نے کہا کہ ایسی صورت میں ملزم بری ہو جائے گا۔