نئی حکومت لمبی اننگز کھیلنے کیلئے تیار

Published On 07 March,2024 11:52 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) وفاق اور چاروں صوبوں میں نئی حکومتیں بن چکی ہیں، ملک سے غیر یقینی سیاسی صورتحال کے بادل چھٹتے جا رہے ہیں، 8 فروری کے انتخابات کے بعد ایک سوال جو زبان زد عام تھا کہ کیا نئی مخلوط حکومت چل پائے گی ؟ اگر چل بھی پڑی تو کتنا عرصہ؟ خواجہ آصف جیسے( ن) لیگی رہنما نے ٹی وی انٹرویو میں مڈٹرم الیکشن کا عندیہ دے دیا۔

میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی بحث ہونے لگی کہ نئی حکومت بیساکھیوں پر قائم ایسی حکومت ہے جس میں 16 ماہ کی پی ڈی ایم حکومت کے شراکت دار بھی کابینہ میں بیٹھنے سے گریز کر رہے ہیں، ملک ایک مشکل ترین معاشی دور سے گزر رہا ہے، تلخ اور مشکل فیصلے کرنے ہیں، پارلیمنٹ میں ایک تگڑی ترین اپوزیشن نے اسمبلی اجلاسوں کے آغاز میں ہی ناکوں چنے چبوانے شروع کر دیئے ہیں، مگر کیا واقعی ایسا ہے کہ نئی مخلوط حکومت کی کشتی ہچکولے کھاتی رہے گی اور اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہے گی؟

پاکستان کی سیاست کے محرکات، مقتدرہ کی ترجیحات اور ( ن) لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کا طرزِ سیاست اور موجودہ صورتحال میں سیاسی مجبوریاں دیکھیں تو کہا جاسکتا ہے کہ اس حکومت کا کمزور ہونا ہی دراصل اس کی انشورنس ہے، ( ن) لیگ کو اتنا نقصان تو شاید اپوزیشن میں رہ کر نہ پہنچا ہو جتنا دو تہائی اکثریت یا سادہ اکثریت والی حکومتوں کے دوران پہنچا، میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت والی حکومت کے دوران پرویز مشرف سے تصادم کر بیٹھے اور نتیجے میں عمر قید کی سزا اور اس کے بعد جلا وطنی کاٹنی پڑی۔

اس کے بعد 2013 ء میں ایک بہترین سادہ اکثریت والی حکومت میں ان کے کچھ فیصلوں کے باعث انہیں اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑگیا، چار برس بعد معاملات اس نہج پر پہنچ گئے کہ انہیں نا اہلی کے ساتھ ساتھ اپنی صاحبزادی کے ساتھ جیل بھی کاٹنا پڑی اور ایک مرتبہ پھر وطن سے دور جانا پڑا۔

میاں نواز شریف اب بھی ایسی ہی حکومت چاہتے تھے جس میں انہیں کم از کم سادہ اکثریت حاصل ہو، جس کا اظہار انہوں نے انتخابات سے قبل اور پولنگ ڈے پر بھی کیا مگر 8 فروری کے انتخابات کے بعد ایسی صورتحال بن گئی کہ میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ لینے سے انکار کرنا پڑا اور قرعہ شہباز شریف کے نام نکلا، اب جائزہ لیتے ہیں کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ موجودہ حکومت قیاس آرائیوں کے برعکس طویل عرصہ چلتی دکھائی دے رہی ہے۔

پاکستان میں حکومتیں اپوزیشن نہیں مقتدرہ کے ساتھ لڑائی کے باعث گھر جاتی رہی ہیں، پارلیمان میں اپوزیشن کا شور شرابا ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا کی زینت تو بن رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نئی حکومت کیلئے درد ِسر بھی ہے، ایونوں میں ہونے والے شور شرابے سے حکومتیں سیاسی دباؤ میں تو ضرور رہتی ہیں مگر اپوزیشن کے پاس انہیں اقتدار سے نکالنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے تحریک عدم اعتماد، مگر پاکستان تحریک انصاف کے پاس نہ تو اتنے نمبرز ہیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد کا سوچ بھی سکے اور نہ ہی کوئی دوسری جماعت اس کے ساتھ چلنے کی متحمل ہو سکتی ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی بڑی آوازوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جو ایک حد میں رہ کر ہی احتجاج کرتے رہیں گے، پنجاب سے کوئی بڑا نام ایوان میں اپوزیشن کرتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ پنجاب میں تو نہ صرف اپوزیشن بلکہ تحریک انصاف کے ہارنے والے آزاد امیدوار بھی ایسے دبک کر بیٹھ گئے ہیں جیسے پنجاب میں سب اچھا ہے، پنجاب میں نہ تو کوئی سڑکوں پر ہے اور نہ ہی ایوان میں شور مچاتا دکھائی دیتا ہے، حیران کن طور پر پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے ہارنے والے آزاد امیدواروں کی جانب سے انتخابی عذر داریوں کی پیروی کرنے میں بھی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ماضی میں مسلم لیگ (ن) کو اتنا خطرہ اپوزیشن سے نہیں رہا جتنا اپنے سیاسی فیصلوں سے، اس مرتبہ مخلوط حکومت ایسی حالت میں ملی ہے کہ (ن) لیگ کسی بھی قسم کا مس ایڈونچر کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، موجودہ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کے پلر پر کھڑی ہے، اگر یہ پلر نکل جائے تو حکومت قائم نہیں رہ سکتی، بڑے ملکی فیصلے شہباز شریف، ان کے بھائی اور قائد میاں نواز شریف تنہا نہیں کر سکتے۔

(ن) لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سسٹم میں stakes بڑھ چکے ہیں کہ اس وقت وہ ایک دوسرے کو غیر مستحکم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، مسلم لیگ ( ن) کی وفاق کے علاوہ پنجاب میں حکومت، پیپلز پارٹی کے پاس صدر، دو گورنرز، چیئرمین سینیٹ کے عہدے اور دو صوبوں میں حکومتیں ہیں، دونوں جماعتیں کوئی ایسی مہم جوئی کرنے کے قابل نہیں کہ ملک میں آئندہ دو سے تین برس میں مڈٹرم انتخابات کا سوچا جا سکے۔

رہی سہی کسر مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے سے نکل گئی ہے، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے بعد خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کو باقی پارلیمانی جماعتوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس کے بعد حکومتی اتحاد کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ملنے جا رہی ہ،۔ یہ عددی طاقت تو بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس نہیں تھی، اب آنے والے دنوں میں حکومتی اتحاد اپوزیشن کی مزاحمت کے بغیر آئین میں ترامیم بھی کر سکے گا۔

وفاقی حکومت مقتدرہ کی ترجیحات کے مطابق خود کو ڈھالنے کیلئے نہ صرف پوری طرح تیار ہے بلکہ اس نے وزارت خزانہ جیسی اہم ترین وزارت کی سربراہی میاں نواز شریف کے سب سے قریبی ساتھی اسحاق ڈار کو نہ دے کر اور معاشی گراؤنڈ میں ایک ٹیکنوکریٹ کھلاڑی کو اتار کر واضح پیغام دے دیا ہے کہ معیشت سمیت تمام قومی اور ریاستی امور میں سیاست سے بالاتر ہو کر فیصلے کئے جائیں گے۔

کچھ حلقے یہ بھی توقع کر رہے تھے کہ انتخابی شفافیت کے معاملے پر عالمی میڈیا کی رپورٹنگ کے بعد مغرب سے کوئی رد عمل آسکتا ہے مگر نہ تو کوئی رد عمل آیا بلکہ مغرب سمیت دوست ممالک کی جانب سے شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی حکومت کے ساتھ چلنے کا عندیہ دیا گیا۔

263 ویں کور کمانڈر کانفرنس میں پاک فوج نے بحیثیت ادارہ مرکز اور صوبوں میں اقتدار کی جمہوری انداز میں منتقلی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ انتخابات کے بعد کا ماحول پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام لائے گا جس کے نتیجے میں امن اور خوشحالی آئے گی، کور کمانڈر کانفرنس کے فورم سے پیغام دیا گیا کہ معاشی اور سماجی ترقی کو فروغ دینے میں حکومت کو مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا، ایسے میں واضح نظر آ رہا ہے کہ قیاس آرائیوں اور تبصروں کے برعکس موجودہ حکومت ایک لمبی اننگز کھیلنے کیلئے تیار ہے۔