لاہور: (خاور گلزار) ہمارا خطہ کرہ ارض کے ایسے حصہ پر واقع ہے جہاں پر بسنے والے مختلف موسموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، یہاں سال میں چار موسم تبدیل ہوتے ہیں اور ہر موسم اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ خوشنما پھولوں اور خوش ذائقہ پھلوں کے ساتھ زندگیوں کو سرشار کرتے ہیں۔
تمام موسم اپنی اپنی الگ ہی پہچان رکھتے ہیں، موسم گرما جہاں دھوپ اور تمازت لئے جلوہ گر ہوتا ہے وہیں پر اس موسم کے پھل خصوصاً آم جسے پھلوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے دنیا بھرمیں پسند کیا جاتا ہے، بعض لوگ آم کو کھاتے ہوئے بہت نفاست کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ہاتھ گندے نہ ہوں ویسے کانٹے سے کھانا بھی شاید آم کی توہین ہے کیونکہ آم اور پائے کھاتے ہوئے جب تک ہاتھ گندے نہ ہوں تو مزہ ہی نہیں آتا، بد تہذیبی کے ساتھ کھانے سے ہی آم کا مزہ دوبالا ہوتا ہے۔
موسم گرما شروع ہوتے ہی آموں کی مٹھاس اور دل کو لبھانے والا ذائقہ ہر ایک کو اپنی طرف کھینچتا ہے، پاکستان میں چونسہ، سندھڑی، لنگڑا اور انور راٹھور ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں اور یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک میں بھی بہت پسند کئے جاتے ہیں، بیرون ملک مقیم اپنے پیاروں کو تحفے کے طورپر ہزاروں میل دور پارسل کیا جاتا ہے۔
ویسے دنیا کے بہت سے خطوں میں آم کی پیداوار ہوتی ہے مگر پاکستانی آموں کی ایک الگ ہی پہچان ہے، بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اپنے وطن کے آموں کی خوشبو سے سرشار ہو جاتے ہیں، دبئی میں تو یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کسی جنرل سٹور والے نے پاکستانی آم منگوائے ہوں تو وہ دکان پر آنے سے پہلے ہی فروخت ہوجاتے ہیں۔
موسم گرما میں جب سورج اپنی تمازت کا بھرپور جلوہ دکھاتا ہے اور شہر لاہور کا درجہ حرارت 47 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے تو لاہور کے منچلے ہی نہیں بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین بھی نہر کا رخ کرتی ہیں اور نہر کے کنارے کنارے ایک میلے کا سماں ہوتا ہے۔
یہاں پر مینگو پارٹی کااہتمام بھی کیا جاتا ہے، لوگ نہر کے پانی میں آموں کو ٹھنڈا کرتے ہیں یا پھر ایک بڑے برتن میں پانی ڈال کر اس کو دو یا تین گھنٹے کیلئے رکھ دیا جاتا ہے یا پھر برف میں لگا کر آم کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے، آموں سے بھرے برتن کو نہر کنارے بیٹھ کر درمیان میں رکھ کر خوش ذائقہ آموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
پاکستانی آموں کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ آنجہانی ملکہ برطانیہ کیلئے خاص طور پر پاکستانی آم منگوائے جاتے تھے، اومان کے سلطان مرحوم سلطان بن قابوس پاکستانی آموں کے بہت شوقین تھے، 1968ء میں پاکستانی وزیر خارجہ شریف الدین پیر زادہ چین کے دورے پر گئے جہاں ان کی ملاقات چینی رہنما مائوزے تنگ سے طے تھی۔
اس دورے پر روانہ ہونے سے پہلے شریف الدین پیزادہ اپنے ساتھ 40 پیٹیاں آم بھی لے گئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اب چین آموں کی پیداوار میں ایشیا کے بہت سے ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا ہوں، پاکستانی وزیر خارجہ شریف الدین پیر زادہ کی آموں کو بطور تحفہ دینے کی روایت آج کے دور میں بھی جاری و ساری ہے۔
ماضی اور حال میں پاکستانی حکمران جب بھی بیرون ملک سرکاری دوروں پر جاتے ہیں تو پاکستانی آموں کو بطور تحفہ ساتھ لے کر جاتے ہیں، موسم گرما کے آتے ہی پاکستان سمیت مختلف ممالک میں پاکستانی آموں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے، آم پاکستان کے علاوہ ہندوستان اور فلپائن کا بھی قومی پھل ہے۔
آم کی پیداوار کیلئے جنوب ایشیائی ممالک کی آب و ہوا موزوں ترین ہے، دنیا کا 70 فیصد آم ایشیا میں پیدا ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ بھارت میں 1500 سے زیادہ اقسام کے آم پائے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں 225 قسم کے آموں کی پیداوار کی جاتی ہے، صرف سندھ میں ہی 150 قسم کے آموں کی پیداوار کی جاتی ہے۔
موسم گرما کے شروع ہوتے ہیں آم کے آنے سے پہلے ہی پاکستان کے عوام پرجوش ہو جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر بھی اس پھل کے بارے میں پوسٹیں اور وی لاگز شیئر ہونا شروع ہو جاتے ہیں، آم کی کوئی بھی قسم ہو یہ عام آدم سے لے کر خواص تک سب کے دل کو خوش کرتا ہے، آم کے ٹھیلے کے قریب سے گزرتے ہوئے آم کسی بھی قسم کا ہو اس کی مخصوص خوشبو، ذائقہ اور رنگت دیکھ کر آپ کے منہ میں پانی آ ہی جاتا ہے۔
دنیا کا مہنگا ترین آم
جب آموں کی بات کی جائے تو جاپان میں اگنے والے نایاب آم کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی، جاپان کے شہر میازاکی میں آموں کی ایک ایسی نایاب قسم کی پیداوار ہوتی ہے جو کہ دنیا کی مہنگی ترین قسم ہے، یہ آم پیلے رنگ کی بجائے سرخ یا بینگنی مائل سرخ ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی منڈیوں میں یہ پریمیم آم 800 ڈالر سے 900 ڈالر فی کلوگرام میں فروخت ہوتے ہیں جو پاکستان میں اڑھائی سے تین لاکھ روپے کے برابر ہے، آموں کی اس نایاب نسل کی جاپان، فلپائن، تھائی لینڈ کے علاوہ پاکستان اور بھارت میں بھی پیداوار کی جاتی ہے۔
خاور گلزار شعبہ صحافت سے تعلق رکھتے ہیں اور روزنامہ ’’دنیا‘‘ سے وابستہ ہیں۔