لاہور: (محمد علی)’’یوم تکبیر‘‘پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے، جب 28 مئی 1998ء کو صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر پاکستان نے پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کئے اور پاکستان مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت بن گیا، الحمد للہ، یہ 11 اور 13 مئی 1998ء کو بھارت کے جوہری تجربوں کا سٹریٹجک جواب تھا۔
یہ جوہری تجربات بلوچستان کے ضلع چاغی کے راس کوہ پہاڑیوں میں کئے گئے، ایٹمی دھماکوں کی کل تعداد چھ تھی، پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک موقع پر اس کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’28 مئی کو جو جوہری ہتھیار ٹیسٹ کیا گیا اس میں ایک Boosted Fission ڈیوائس تھی اور باقی چارsub-kiloton ایٹمی آلات تھے، اس کے بعد 30 مئی 1998ء کو پاکستان نے 12 کلو ٹن کی پیداوار کے ساتھ ایک اور جوہری تجربہ کیا، محکمہ موسمیات کے مطابق 28 مئی کو پاکستان کے جوہری ٹیسٹوں سے ریکٹر سکیل پر زلزلے کے 5.0 سگنل پیدا ہوئے۔
جوہری ہتھیار ناگزیر تھا
پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کے بیش قیمت اور پیچیدہ آپشن کی طرف کیوں جانا پڑا، اس کو سمجھنے کیلئے تاریخ کو 70ء کی دہائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے، دراصل 1974ء میں بھارت اپنے پہلے ایٹمی تجربے کے ذریعے اس خطے کے غیرمستحکم سکیورٹی ماحول میں نیوکلیئر معاملات کو شامل کر چکا تھا، جسے مغرب کے کچھ لوگوں نے ’’مسکراتا بدھا‘‘ کا نام دیا۔
یہ’’ نیوکلیئر عدم پھیلاؤ‘‘ کے معاہدے کے تحت قائم نظام کو پہنچنے والا حقیقتاً پہلا بڑا دھچکا تھا، دنیا نے بھارت کے دعوؤں میں چھپے اس فریب کو بھی جلد ہی دریافت کر لیا کہ نہرو کے دور میں اس کا جوہری پروگرام پُرامن استعمال کیلئے نہیں تھا اور یہ کہ 1964ء میں چین کے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد بھارت کی شاستری حکومت نے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شروع کر دیا تھا، مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کیلئے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔
بھارت ایٹمی قوت بننے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کر کے اس کو دولخت کر چکا تھا، تاہم بھارت کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطے میں طاقت کا توازن شدید طور پر بگڑ گیا، چنانچہ 1974ء کے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا عزم کیا، پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وطن آمد کے بعد ہوئی۔
1977ء میں ضیاء الحق کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے جرمنی، فرانس اور کینیڈا سے جوہری ٹیکنالوجی خریدنے کیلئے اہم اقدام کئے، حساس ترین آلات خریدنا اور ان کو پاکستان منتقل کرنا اہم ترین مسئلہ تھا، پاکستان کو اس مقصد کیلئے یورپ، مشرق وسطیٰ، سنگاپور وغیرہ میں خصوصی انتظامات کرنا جس کے تحت حساس آلات مختلف ملکوں سے خریدے جاتے اور انہیں مختلف ممالک کے راستے منتقل کیا جاتا، امریکہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے راستے پر گامزن ہے، تو امریکہ نے فرانس، جرمنی اور کینیڈا پر پابندیاں عائد کر دیں کہ وہ پاکستان کو ایسی کوئی ٹیکنالوجی فراہم نہ کریں جو پاکستان ایٹمی پروگرام میں پیشرفت کا باعث بنیں۔
جرمنی نے امریکی پابندی کے باوجود پاکستان کو کچھ ٹیکنالوجی فراہم کی، اس کا ذکر پاکستان کے سابقہ سفارتکار جمشید مار نے بھی کیا ہے کہ پاکستان کو یورینیم افزودگی کا معیار پرکھنے والے آلے سمیت بہت سے حساس آلات فروخت کرنے والا ملک جرمنی تھا، ان حساس آلات کو خریدنے کے بعد مختلف راستوں سے پاکستان منتقل کیا گیا، پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے لائے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا، ایک چھوٹی سی غلطی بھی سارے پروگرام کیلئے خطرے کا باعث بن سکتی تھی۔
1974 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور انتہائی افزودہ یورینیم کے بطور انشقاق مواد کی فزیبلٹی پر زور دیا، PAEC کی طرف سے 1967ء میں گیسی سینٹری فیوج پر ابتدائی کام کیا گیا تھا لیکن ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے نیدرلینڈز میں یورینکو گروپ سے حاصل کردہ مہارت سے یورینیم کی افزودگی کے کام کو آگے بڑھایا، اُن کی نگرانی میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (KRL) کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کی یورینیم افزودگی کی صلاحیتوں کیلئے ضروری مواد ٹیکنالوجی اور آلات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔
11 مارچ 1983ء کو ڈاکٹر منیر احمد خان کی سربراہی میں PAEC نے پہلی نیوکلیئر ڈیوائس کی ذیلی جانچ کی، جسے کولڈ ٹیسٹ بھی کہا جاتا ہے، اس کا کوڈ نام-1 Kirana تھا، 1983ء سے 1994 ء تک مزید 24 کولڈ ٹیسٹ کئے گئے، بالآخر 28 مئی 1998ء کا وہ دن بھی آ گیا جب پاکستان حقیقی طور پر جوہری ہتھیاروں کے تجربات کرنے والا تھا۔
اُس روز پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے سہ پہر کو سوا تین بجے چاغی ٹیسٹ سائٹ پر پانچ زیر زمین ایٹمی تجربات کئے، اس عمل کے مشاہدے کیلئے پوسٹ ٹیسٹ سائٹ سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم کی گئی تھی جس میں ڈاکٹر مسعود احمد اور اصغر قادر کی سربراہی میں ’’میتھا میٹکس گروپ‘‘ اور ’’تھیوریٹیکل فزکس گروپ‘‘ کے ارکان کو جوہری ہتھیاروں کی کیلکلو لیشن کا حساب لگانے کا چارج دیا گیا تھا، اس طرح پاکستان مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی نویں جوہری صلاحیت کی حامل ریاست کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ٹھہرا۔
پاکستان کی جوہری صلاحیت جنوبی ایشیائی خطے میں طاقت کا توازن قائم کرنے کیلئے کلیدی حیثیت کی حامل ہے جس نے یکطرفہ جارحیت کے اندیشوں کا ازالہ کر دیا ہے، اس طرح یہ جوہری ہتھیار در حقیقت امن کے پیامبر ثابت ہوئے ہیں۔
محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے ہیں۔