کراچی: (دنیا نیوز) وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ میں ہم نے جتنا کام کیا وہ نا کافی ہے، ہم نے صوبے کیلئے ابھی بہت سے کام کرنے ہیں۔
سندھ اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان میں اسمبلیاں سجی ہوئی ہیں، ہماری اس وقت 117 سیٹیں ہیں، کبھی اتنی نہیں لیں، ہمیں اور بہت کچھ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید بینظیر بھٹو کے والد کا ایک آمر اور جابر نے عدالتی قتل کیا، اپنے ملک کی سربراہی کرتے ہوئے یو ایس کانگریس میں تقریر کی، شہید بینظیر بھٹو نے ڈیموکریسی کی بات کی، کافی لوگوں نے یہاں تقاریر کی ہیں، لیڈر آف اپوزیشن نے کہا تھا آپ سے عوام خوش ہوگی تو ہم بھی ہوں گے۔
’سندھ اسمبلی اپنی لیڈر شپ کے اصولوں کے مطابق چل رہی ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ محترمہ کو دہشتگردوں نے 27 دسمبر 2007 کو شہید کر دیا، محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی شہادت پر بھی یہی کہا گیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، صدر آصف علی زرداری دوبارہ منتخب ہوئے یہ بہترین انتقام ہے، کئی کو نکالا جاتا ہے، کچھ ڈکٹیٹر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ بجٹ تقریر بیان کرنے پر بھی کافی لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے، کچھ دوستوں نے کہا پری بجٹ پر بحث ہوجاتی تو اچھا ہوجاتا، بجٹ بنانا ہوتا ہے کام کرنا ہوتا ہے، مئی میں جا کر بجٹ پر بحث کرنے سے کیا کریں گے، سندھ اسمبلی اپنی لیڈر شپ کے اصولوں کے مطابق چل رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دو سینیٹ کے الیکشن کرانے تھے یہ سب مارچ کے ماہ میں ہوا، ہم نے کہا نئی سکیم کوئی نہیں ڈالی جائے گی، نئی سکیم نہیں ڈالی گئی، ہم بجٹ پر بحث نہیں کر سکے اور کچھ اور وجوہات بھی تھیں۔
’مخالفین بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے‘
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہمارا ڈویلپمنٹ بجٹ 959 بلین کا ہے، ہمارے مخالفین بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے، مخالفین کہتے ہیں ہمیں بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سکھاؤ، دوست اور مخالفین دونوں ہی ہماری پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو سراہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب بڑا صوبہ ہے، وہاں کا بجٹ ہم سے دوگنا بجٹ ہو جاتا ہے، ہر سال بجٹ بحث ہوتی ہے،اس سال نہیں کر سکے، 12 مارچ کو ہماری کابینہ بنی، پری بجٹ پر بحث کرانا ممکن نہیں تھا، پری بجٹ پر بحث نہ ہونے کی وجہ سینیٹ انتخابات بھی تھے۔
’نگران حکومت نے ہماری سکیمز بند کیں لیکن پنجاب میں چلتی رہیں‘
مراد علی شاہ نے کہا کہ پنجاب کا بجٹ ہم سے دو گنازیادہ ہے، اس کے باوجود ان کا ترقیاتی بجٹ 842 ارب ہے، خیبرپختونخوا کا ترقیاتی بجٹ 416 ارب روپے ہے، بلوچستان نے 320ارب روپے ترقیاتی بجٹ کیلئے رکھے، نگران حکومت نے ہماری سکیمز بند کیں لیکن پنجاب میں چلتی رہیں، پنجاب میں نگران حکومت کیلئے لمبا عرصہ تھا، وہ کام کرتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی صوبائی حکومت نے کہیں ایئرپورٹ بنایا؟ گزشتہ پانچ سال میں تھرپارکر میں ایئرپورٹ بنایا، ہم نے تھر میں خواتین کو بااختیار بنایا، ہسپتال اور سکول تعمیر کرائے، اب پنک بس سروس بھی ہماری خواتین چلائیں گی، تھر میں ٹرک ڈرائیور وہاں کی مقامی خواتین ہیں، تھر میں چلنے والے ٹرک عام نہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ میں پہلی بار تھر 2004 یا 2005 میں گیا تھا، مٹھی تک پہنچنے میں 6 گھنٹے لگے تھے، اب تین گھنٹے لگیں گے، تھر کی خواتین آر او پلانٹ چلاتی ہیں، سٹیزن فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر تھر میں سکول اور ہسپتال بنائے ہیں، ہم نے تھر فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر کلینک کھولے ہوئے ہیں، تھر میں 750لاکھ درخت لگائے گئے ہیں۔
ہم آئندہ مالی سال میں پنجاب سے زیادہ ترقیاتی کام کریں گے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ جو کہتے تھے سندھ حکومت نے کچھ نہیں کیا انہیں دکھا رہا ہوں، الیکشن کمیشن نے پنجاب میں ترقیاتی سکیمیں بند نہیں کیں، الیکشن کمیشن ہماری سکیمیں بند نہ کرتا تو ترقیاتی بجٹ 530 کے بجائے 580 ارب ہو سکتا تھا، 2023 اور 24 میں ہم اپنی تمام سکیمیں منظور کر کے گئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں نگران حکومت لمبے عرصے تک رہی وہ ترقیاتی اخراجات کرتے رہے، 2018 سے 23 کے دوران تھر میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے، ہم آئندہ مالی سال میں پنجاب سے زیادہ ترقیاتی کام کریں گے۔