اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی زیر صدارت مبارک ثانی کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس نے کیس کا فیصلہ سنا دیا۔
عدالت نے وفاقی حکومت کی درخواست منظور کر لی، سپریم کورٹ نے 42 اور 7 سمیت 49 سی کو فیصلے سے حذف کردیا، 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں سے متنازع پیرا گراف کو بھی حذف کر دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کوئی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں، ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے، اس لئے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں، میری ہر نماز کے بعد ایک ہی دعا ہوتی ہے کہ کوئی غلط فیصلہ نہ ہو، عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراض ہیں ہمیں ان کی نشاندہی کریں۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہئے، معاملہ مذہبی ہے تو علمائے کرام کو سن لیا جائے، مبارک ثانی کیس کی نظرثانی میں جب آپ نے فیصلہ دیا تو پارلیمنٹ اور علماء کرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا، کہا گیا کہ حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے عدالت میں موجود مولانا فضل الرحمان، مفتی شیر محمد اور دیگر موجود علماء سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا، ابو الخیرمحمد زبیر، جماعت اسلامی کے فرید پراچہ بھی عدالت کی معاونت کریں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے مفتی تقی عثمانی سے بھی معاونت کا کہا تھا وہ ترکیہ میں ہیں، ہم نے مفتی منیب الرحمان کو آنے کی زحمت دی وہ نہیں آئے، اس پر مفتی منیب کے نمائندے نے کہا کہ مجھے مفتی منیب الرحمان نے بھیجا ہے۔
دوران سماعت علامہ تقی عثمانی نے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے 29 مئی کے فیصلے سے دو پیراگراف حذف کرنے کا مطالبہ کیا، انہوں نے کہا کہ فیصلے کے پیراگراف 7 اور 42 کو حذف کردیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تقی عثمانی صاحب میں معذرت چاہتا ہوں، وضاحت کرنا چاہتا ہوں جنہیں نوٹس کیا تھا ان کی جانب سے ہمیں بہت سارے دستاویزات ملے، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیتے تو شاید فیصلے کی پوری کتاب بن جاتی، ان تمام دستاویزات کو دیکھ نہیں سکا وہ میری کوتاہی ہے، عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراض ہے ہمیں نشاندہی کریں، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے اس لیے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں، میں غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 6 فروری کا فیصلہ نظرثانی کے بعد پیچھے رہ گیا ہے، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے، میرا مؤقف ہے کہ ہم امریکا، برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں اپنی کیوں نہ دیں؟ کوئی میٹرک کا امتحان نہ دے تو فیل ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔
یاد رہے کہ 6 فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے مبارک ثانی کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا تھا، جس پر 2019ء میں پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) (ترمیمی) ایکٹ کے تحت ایک جرم کرنے کا الزام تھا۔
اس فیصلے کو بعد میں پنجاب حکومت نے اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ آئین کے آرٹیکل 20 سے متعلق آرڈر کے پیراگراف 9 میں ترمیم کی ضرورت ہے کیونکہ شہریوں کے حقوق جیسا کہ اس شق کے تحت تصور کیا گیا ہے مطلق نہیں بلکہ قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے تابع تھے۔