لاہور: (شازیہ کنول) اس بات سے قطع نظر کہ شادی کی ناکامی کی وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں، شادی ٹوٹنے کا تجربہ لوگوں کیلئے خوشی کا باعث نہیں ہوتا۔
جس میں دونوں فریق کو طلاق کا معاہدہ کرنا ہوتا ہے اور اس حوالے سے اپنے ملک کے قوانین کی پابندی کرنی پڑتی ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں طلاق کی عجیب و غریب رسومات اور طلاق کے حیرت انگیز قوانین ہیں۔
مندر میں طلاق کا ٹوائلٹ
جاپان میں ایک ایسا مندر واقع ہے جو اپنے زائرین کو ناکام شادی ٹوائلٹ میں بہانے کی پیشکش کرتا ہے، وسطی جاپان کے صوبے گونما میں ’’منٹو کوجی ٹیمپل‘‘ ازدواجی تعلقات سے چھٹکارا حاصل کرنے والے جوڑوں کو ایک کاغذ پر تمام گلے شکوے لکھنے اور طلاق کی وجوہات بیان کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جسے بعد میں فلیش میں بہا دیا جاتا ہے۔
طلاق پر ماتم کی رسم
جرمنی کے ایک چرچ میں طلاق پر ماتم کی رسم صدیوں سے چلی آ رہی ہے، یہ 2000ء کی بات ہے جب جرمنی میں ایک پادری مارگوٹ کائسمین نے ملک کے تمام گرجا گھروں میں طلاق کے موقع پر ماتم کی رسم ادا کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے بعد ان کی تجویز پر گرجا گھروں میں طلاق کے موقع پر بڑے پیمانے پر ماتم کی رسم ادا کی گئی، جس میں دونوں فریقین دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنی شادی کی ناکامی کی وجوہات سے آگاہ کرتے ہیں۔
طلاق کا سرٹیفکیٹ منحوس
جینگ افراد چین سے تعلق رکھنے والی ایک اقلیتی نسل کے افراد ہیں، جن کے ہاں طلاق کا ایک مخصوص طریقہ ہے، جس کے مطابق طلاق کے سرٹیفیکٹ پر دستخط گھر کے اندر نہیں کیا جاسکتا اور دستخط کرنے کے فوراً بعد قلم اور دوات کو برا شگن سمجھ کر دور پھینک دیا جاتا ہے۔
محبت نامے سات برس بعد ارسال
2011ء میں چین میں ایک سرکاری ڈاک خانے کی طرف سے ایک مہم چلائی گئی، جس میں شادی شدہ جوڑوں کو ایک محبت نامہ لکھنے کی ترغیب دی گئی، جسے شادی کے سات برس بعد شریک حیات کو ارسال کیا جائے گا، اس کا مقصد ملک میں طلاق کی شرح کو کم کرنا تھا تاکہ سات برس بعد محبت نامہ پانے والے میاں بیوی ایک بار پھر سے اس محبت کو یاد کر سکیں جس نے انھیں ملایا تھا۔
طلاق کے عجیب وغریب قوانین
دنیا کے کئی ممالک میں طلاق کے ایسے عجیب و غریب قوانین موجود ہیں جہاں طلاق حاصل کرنا ایک ناقابل یقین تجربہ ثابت ہوتا ہے، دنیا میں فلپائن واحد ملک ہے، جس کا قانون آج بھی اپنے شہریوں کو طلاق کی اجازت نہیں دیتا۔
ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 1985ء سے 2000ء کے درمیان جاپان میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ تھی، 2006ء میں جاپانی جوڑوں میں شادی کے بیس برس بعد طلاق لینے کا رواج زیادہ عام ہوگیا تھا، ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ریٹائرڈ ہسبنڈ سینڈروم کی وجہ سے تھا یعنی ایسے شوہروں کی وجہ سے جو روزگار کیلئے ملک سے باہر رہتے ہیں اور اپنی بیوی کو زیادہ نہیں جانتے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں اپنی بیوی میں ہر طرح کے عیب نظر آتے ہیں۔
طلاق کیلئے تیسرے فریق پر ہرجانہ: امریکہ کی سات ریاستوں میں شادی کی ناکامی کی وجہ ایک تیسرے فریق کو ٹھہرایا جا سکتا ہے اور شادی خراب کرنے والے تیسرے شخص پر شادی کے نقصان کیلئے بھاری رقم کا ہرجانہ دائر کیا جا سکتا ہے، تاہم اس الزام کو ثابت کرنے کیلئے ثبوت کی ضرورت پڑتی ہے۔
ساس سے برا سلوک: امریکی ریاست کنساس میں شادی کو طویل مدت تک قائم رکھنے کیلئے طلاق کا ایک ایسا قانون موجود ہے جس کے تحت دونوں فریق کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ ساس کے ساتھ بدسلوکی یا برے تعلقات رکھنے پر ایک دوسرے کو طلاق دے سکیں۔
ہنسی مذاق میں شادی کرنے والوں کو طلاق کی اجازت: امریکی ریاست ڈیلاوئیر میں طلاق کیلئے ایک ایسا قانون موجود ہے جس کے تحت اگر ایک شخص ہنسی مذاق یا شرط نبھانے کیلئے شادی کر لیتا ہے تو اسے بعد میں طلاق کا مقدمہ دائر کرنے کی اجازت ہے، اس قانون سے ہنسی مذاق میں شادی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
شادی پر شادی سے طلاق: آسٹریلیا میں قبائلی خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یا تو اپنے شوہر کو طلاق دینے کیلئے آمادہ کریں یا پھر شادی سے چھٹکارا پانے کیلئے ایک دوسری شادی کر لیں، اس طرح ان کی پہلی شادی خود بخود منسوخ ہو جاتی ہے۔
ایک ہی شخص سے چوتھی بار شادی: امریکی ریاست کینٹکی میں اس بات کی اجازت ہے کہ آپ ایک ہی شخص سے طلاق کے بعد تین بار شادی کر سکتے ہیں لیکن چوتھی بار اسی شخص سے شادی کرنے کی اجازت آپ کو ریاست کا قانون نہیں دیتا۔
زہر دے کر مارنے پر طلاق: امریکی ریاست ٹینسی میں اگر آپ کا شریک حیات آپ کو جان سے مارنے کیلئے کوئی حربہ مثلاً زہر پلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس بنیاد پر آپ کی طلاق منظور ہو سکتی ہے۔
شوہر کی دماغی حالت کی خرابی پر طلاق: نیو یارک میں اگر آپ یہ ثابت کر سکیں کہ آپ کے شریک حیات کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے تو آپ کو طلاق مل سکتی ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ شادی کے دوران شریک حیات کی دماغی حالت کم از کم پانچ سالوں سے خراب رہی ہو۔
عیب کے بغیر طلاق ناممکن: برطانیہ میں طلاق حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ شریک حیات کی حد درجہ برائیوں کا ذکر کیا جائے، صرف ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر طلاق منظور نہیں کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں جوڑے طلاق کیلئے شریک حیات میں عجیب وغریب عیب تلاش کرتے ہیں، جیسا کہ ایک شوہر نے طلاق کے مقدمے میں کہا کہ وہ اپنی بیوی کو اس لئے طلاق دینا چاہتا ہے کیونکہ وہ ہر روز مچھلی پکاتی ہے۔
شازیہ کنول شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، مختلف اخبارات اور ویب سائٹس کیلئے باقاعدگی کے ساتھ لکھتی ہیں۔