اوزون تہہ کی بحالی

Published On 23 September,2024 12:35 pm

لاہور: (محمد علی راؤ) عالمی ادارہ موسمیات (WMO)کے سالانہ ’’اوزون اینڈ یو وی بلیٹن‘‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اگر موجودہ موسمیاتی پالیسیاں برقرار رہیں تو 2066ء تک قطب جنوبی کے اوپر اوزون کی تہہ کو 1980ء کی حالت میں کامیابی سے بحال کیا جا سکتا ہے ،جہاں اس کی تہہ میں بہت بڑا شگاف ہے۔

Ozone and UV Bulletin اوزون کے عالمی دن کے موقع پر 16 ستمبر کو جاری کیا گیا تھا جو اوزون کی تہہ کو بحال کرنے سے متعلق مانٹریال پروٹوکول پر عملدرآمد کی مناسبت سے منایا جاتا ہے، اس کا مقصد ایسے کیمیائی مادوں کو فضا میں شامل ہونے سے روکنا ہے جو اوزون کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے مطابق مونٹریال پروٹو کول میں کیگالی ترمیم(Kigali Amendment) موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں مدد دے سکتی ہے کیونکہ اس میں کرہ ارض کے ماحول کو گرم کرنے والی ہائیڈرو فلورو کاربن (ایچ ایف سی) گیسوں کا بتدریج خاتمہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

WMOکے بلیٹن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کرہ ہوائی میں کلورین اور برومین کی مقدار میں کمی آ رہی ہے جو اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے والے بڑے عناصر میں شمار ہوتے ہیں، بلیٹن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کیسے فضائی کرے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں وقت کے ساتھ اوزون کے شگاف کو پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔

اوزون کیا ہے؟
اوزون، جس کا سائنسی نام O3 ہے، آکسیجن ہی کی ایک صورت ہے جو بالائی فضا میں ایک چھَلنی کی طرح کام کرتی ہے اور نقصان دہ بالائے بنفشی شعاعوں(UV) کو زمین کی سطح تک پہنچنے سے روکتی ہے، زمین کی سطح سے تقریباً 19 کلومیٹر اوپر اور 48 کلومیٹر کی بلندی تک موجود اوزون کی اس تہہ میں سورج سے آنے والی UVشعاعیں آکسیجن کے ساتھ کیمیائی عمل کر کے اوزون بناتی ہیں۔

اگر یہ شعاعیں سیدھی زمین پر پہنچ جائیں تو جانداروں میں سرطان اور نباتات کی تباہی کا باعث بنیں گی اور اگر نباتات کو قابل قدر نقصان پہنچ جائے تو ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھنے لگے گی اور اس کے زیراثر گرین ہاؤس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔

کرہ ہوائی کی آکسیجن جب سورج سے آتی ہوئی 185 نینومیٹر ویو لینتھ والی الٹرا وائیلٹ جذب کرتی ہے تو اوزون میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اوزون جب سورج کی 255 نینومیٹر ویو لینتھ والی الٹراوائیلٹ جذب کرتی ہے تو ٹوٹ کر دوبارہ آکسیجن بناتی ہے۔

اوزون کی تہہ کیسے بنی؟
اوزون کی تہہ بننے کا عمل کروڑوں سالوں سے جاری ہے مگر ہوا میں موجود نائٹروجن کے کچھ مرکبات اوزون کی مقدار ایک خاص حد سے زیادہ بڑھنے نہیں دیتے، 1970ء کی دہائی میں یہ انکشاف ہوا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ مرکبات اوزون کی اس تہ کو تباہ کر رہے ہیں۔

یہ کیمیکل کلوروفلوروکاربن (Chlorofluorocarbons) یاCFC کہلاتے ہیں جو ریفریجریٹر، اے سی اور ایروسول سپرے میں استعمال ہوتے ہیں، یہ فضا میں جا کر سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں کی وجہ سے اپنے اجزا میں تحلیل ہو کر کلورین بناتے ہیں جو اوزون کی تہہ کو تباہ کر دیتی ہے، اسی طرح بعض مصنوعی کھادوں میں استعمال ہونے والے مرکبات مثلاً نائٹرس آکسائیڈ بھی اوزون کیلئے تباہ کن ہیں۔

اوزون انسانی پھیپھڑوں کیلئے سخت نقصان دہ ہوتی ہے لیکن انسان اس کی زد میں اس لیے نہیں آتے کیونکہ بلند ترین پہاڑ کوہ ہمالیہ کی اونچائی بھی نو کلومیٹر سے کم ہے جبکہ اوزون کی تہہ 19 کلومیٹر اوپر جا کر شروع ہوتی ہے، سطح زمین پر اوزون آسمانی بجلی چمکنییا کاربن برش والی بجلی کی موٹر وغیرہ سے بنتی ہے۔

2011ء میں سائنسدانوں نے بتایا تھا کہ قطب شمالی پر اس برس اس قدر اوزون میں کمی واقع ہوئی ہے کہ پہلی مرتبہ اسے بھی قطب جنوبی کی طرح ’’اوزون ہول‘‘ کہا جانے لگا ہے، سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ سطح زمین سے 20 میٹر فضا میں 80 فیصد اوزوں ختم ہو گئی ہے، اس کا سبب اس اونچائی پر طویل سرد موسم کو قرار دیا گیا تھا، سرد موسمی حالات میں کلورین کے ذرات اوزون کو ختم کرنے میں سب سے زیادہ سرگرم ہوتے ہیں۔

سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے سائنسی جریدے ’’نیچر‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ اس طرح کا نقصان دوبارہ دیکھنے میں آئے گا، اوزون کی تہہ تحلیل ہونے کے عمل میں اگرچہ کمی آئی ہے تاہم اب بھی ماضی قریب میں ہونے والی نقصان کو پُر کرنے کیلئے ابھی طویل وقت درکار ہے۔

محمد علی راؤ تحقیقاتی صحافی ہیں اور دنیا میڈیا گروپ کے انویسٹی گیشن سیل سے منسلک ہیں۔