لاہور: (طلحہٰ ملک) کچھ روز قبل وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سکول کے بچوں میں غذائی کمی کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا، ایسے خدشات کا وزیراعلیٰ پنجاب کا کھلے عام اظہار کرنا کسی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔
یہ بات سو فیصد ٹھیک ہے مگر صرف بچے ہی نہیں تمام عمر کے لوگوں میں سے کتنے فیصد ہی ایسے ہیں جو تمام اصل وٹامنز والے دودھ سے فیض یاب ہو رہے ہیں، پہلے پہل تو شہروں، دیہاتوں میں تمام گھروں میں گائے، بھینسیں عام نظر آتی تھیں مگر اب اردگرد اپنے علاقوں میں نظر دوڑائیں تو یہ حالات اب بڑے شہروں کی حدود سے نکل کر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں بھی یکساں نظر آتے ہیں۔
دودھ تو پہلے گائے بھینسوں سے ہی حاصل کیا جاتا تھا مگر اب ان مویشیوں کے بغیر ہی دھڑا دھڑ تیار کیا جارہا ہے، اسی طرح گجر اور گوالے ہی پہلے پہل دودھ بیچا کرتے تھے مگر اب کوئی وکیل ہے یا پھر کوئی سیاستدان جو مکسر مشینوں سے خالص زہر نما دودھ لوگوں کی رگوں میں دوڑاتے نظر آتے ہیں، دودھ نما سفید زہر کیسے تیار ہوتا ہے؟ یہ سوال بہت دیر تک لوگوں کے دماغوں میں گھومتا رہا مگر اس کہانی کا پردہ تو فوڈ اتھارٹیز کی کارروائیوں میں کھلتا نظر آیا ہے۔
بلاشبہ دودھ روزمرہ استعمال کی بنیادی ضرورت ہے جو تقریباً ہر دوسرا شخص بلاناغہ استعمال کرتا ہے، صوبائی دارالحکومت لاہور کی بات کی جائے تو روزانہ لاکھوں لٹر دودھ فروخت ہوتا ہے، شہر میں موجود مویشیوں سے اتنی بھاری مقدار میں دودھ کی کھپت مکمل کرنا ناممکن ہے اسی لیے دوسرے شہروں سے دودھ لاہور منگوایا جاتا ہے۔
عموماً لوگ یہ سمجھتے تھے کہ گوالے دودھ میں صرف پانی کی ہی ملاوٹ کرتے ہیں مگر سٹارچ، یوریا، صابن، ڈیٹرجنٹس، آٹا، آئل، نان ڈیری فیٹس اور مضر صحت کیمیکلز کی مدد سے تیار کردہ نام نہاد دودھ عوام تک مسلسل پہنچایا جا رہا ہے۔
ماہرغذائیات ماہا جاوید کا کہنا ہے کہ ایسے ملاوٹی محلول کا استعمال السر، کینسر، ہڈیوں کا بھر بھراپن، اندھا پن اور دیگر بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے مگر عوام کی بڑی تعداد اپنے ہی پیسوں سے دودھ کے نام پر زہر خریدنے پر مجبور ہے۔
صوبہ پنجاب میں سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے دور حکومت میں بنائی گئی فوڈ اتھارٹی نے شب و روز کارروائیوں میں ایسے بہت سے عناصر کو بے نقاب کیا مگر یہ کھیل رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا، بڑے شہروں کے داخلی راستوں پر پولیس ناکوں کی طرح فوڈ اتھارٹی کی گاڑیاں بھی کھڑی نظر آتی ہیں۔
بلاناغہ ان ناکوں پر دودھ بردار موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی قطاریں بھی نظر آتی ہیں پھر بھی شہر میں خالص دودھ کی فراہمی کسی خواب سے کم نظر نہیں آتی، حالات اس قدر تنزلی کا شکار ہیں کہ مکسر مشینوں میں یوریا، فارملین، سرف، پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹس کا استعمال کرتے ہوئے سفید محلول تیار کیا جا رہا ہے۔
ایسی ہی ایک کارروائی رواں ماہ وزیر خوراک پنجاب بلال یاسین کی سربراہی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی فوڈ سیفٹی ٹیموں نے کی، علی الصبح ناکہ بندی کے دوران بھاری مقدار میں مضر صحت دودھ پکڑا گیا، سپلائی چین کا تعاقب کرنے کیلئے گجومتہ کے گاؤں گرومانگٹ میں کارروائی کے دوران جعلی دودھ سپلائی کا نیٹ ورک بے نقاب ہوا، 10 ہزار لٹر تیار جعلی دودھ، 2 ہزار لٹر گاڑھا محلول، پاوڈر، گھی، ڈیٹرجنٹ اور کیمیکل موقع پر تلف کردیا گیا۔
2 سپلائی ٹینکرز، 3 پروسیسنگ چلرز اور مکسنگ مشینیں ضبط کرتے ہوئے 3 ملزمان گرفتار جبکہ مقدمہ بھی درج کروایا گیا، موقع پر کیے گئے ٹیسٹ میں پاؤڈر، فارمالین اور ڈیٹرجنٹ کی ملاوٹ پائی گئی، پتہ چلا کی نہ بھینس تھی اور نہ ہی گائے، ملزمان کو جعلی دودھ تیار کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔
یہ معاملہ پہلی بار منظر عام پر نہیں آیا مگر یہ واقعات کب اور کیسے اپنے اختتام کو پہنچیں گے یا ان میں واضح کمی کب آئے گی؟، ”واشنگ مشینوں میں دودھ کی تیاری“ جیسے واقعات بھی اسی صوبے میں سامنے آئے ہیں۔
دوسری جانب پنجاب فوڈ اتھارٹی کی موبائل لیبز اب لاہور شہر کی سڑکوں اور داخلی راستوں پر بھی کھڑی نظر آتی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق پنجاب فوڈ اتھارٹی نے رواں سال فوڈ بزنس آپریٹرز اور دودھ کی چیکنگ کے نئے ریکارڈ بنائے ہیں، صرف ماہ اگست میں 11 لاکھ 68 ہزار لٹر سے زائد دودھ کی چیکنگ کے دوران 8700 لٹر غیر معیاری و ملاوٹی دودھ تلف کیا ہے۔
تلف کیے جانیوالے دودھ کا موازنہ پچھلے سالوں سے کیا جائے تو حالات بہتری کی جانب دکھائی دیتے ہیں مگر مسئلے کے مستقل حل کیلئے ایسے صحت دشمن عناصر کیخلاف سخت سزاوں کی تجاویز پر فوری عملدرآمد کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
کچھ روز قبل وزیر خوراک بلال یاسین نے بھی پنجاب اسمبلی میں کیمیکل اور پاؤڈر ملا دودھ بیچنے والوں کیخلاف سزاؤں میں تبدیلی بارے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو سفارشات ارسال کی ہیں، امید ہے وزیراعلیٰ پنجاب ایسے عناصر کیخلاف کسی صورت رعایت نہیں برتیں گی۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے افسران کو کسی بھی فوڈ پوائنٹ کو سیل کرنے سے روکا ہوا ہے، فقط جرمانوں اور وارننگ نوٹسز سے اس مافیا پر قابو پانا خواب ہے، ایسے عناصر کیخلاف ریگولیٹری اتھارٹیز کے اختیارات کو نہ صرف وسیع کرنا چاہیے بلکہ سنگین ملاوٹ اور جعلسازی ثابت ہونے پر مقدمات اور سخت سزائیں دلوانا وقت کی اشد ضرورت ہے ورنہ یہ زہر ہماری آنے والی نسلوں کیلئے کسی قہر سے کم ثابت نہیں ہو گا۔