لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) حضور نبی اکرمﷺ کی ذات مبارکہ اخلاق حسنہ و سیرت طیبہ کے اعتبار سے وہ منور آفتاب ہے، جس کی ہر جھلک میں حسن خلق نظر آتا ہے، آپﷺ کی ذات پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حلم، حضرت موسیٰؑ کا جوش اور حضرت ایوبؑ کا صبر پایا جاتا ہے۔
آپﷺ نے تبلیغ اسلام کیلئے بستیوں اور بیابانوں میں اللہ کا پیغام پہنچایا، مخالفین کی سنگ زنی وسختیاں سہیں، حضرت ابراہیمؑ کی طرح وطن چھوڑا اور ہجرت کی، دنیا انسانیت کو امن و محبت، رحمت اور سلامتی کا پیغام دیا، حضرت سلیمانؑ کی طرح اس دنیا میں حکمت کی طرح ڈالی، غرض وہ تمام خوبیاں، اوصاف حمیدہ جو پہلے انبیاءؑ میں پائی جاتی تھیں، وہ سب بدرجہ کمال حضور اکرمﷺ کی ذات میں موجود تھیں۔
اخلاق انسان کا ایک ایسا جزو ہے کہ جس کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ وہ کامل انسان ہے، قیامت کے دن مومن کے میزان عمل میں کوئی چیز حسن اخلاق سے زیادہ باوزن نہیں ہوگی، اسی طرح مومن اپنے حسن اخلاق ہی کی وجہ سے ہمیشہ روزہ رکھنے اور تہجد گزار کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے، حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھا ہو‘‘ (جامع ترمذی: 1162)
ایک انسان کے اخلاق معاشرے میں مثبت اور منفی کردار ادا کرنے کی قوت رکھتے ہیں، اچھے معاشرے کی تشکیل ہمیشہ بااخلاق افراد سے ہوتی ہے،دینِ اسلام نے اخلاق کا رول ماڈل نبی کریمﷺ کی صورت میں ہمیں عطا کیا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’یقیناً تمہارے لئے رسول اللہﷺ(کی زندگی) اچھا نمونہ ہے‘‘، اور نبی کریمﷺ کے اخلاق کے متعلق قرآن ان الفاظ میں گویا ہے: ’’اور یقیناً آپ (ﷺ) اخلاق کے عظیم مرتبہ پرفائزہیں‘‘(القلم:4)۔
حضورﷺ کا مزاج گرامی
حضور نبی کریمﷺ کے مزاج گرامی کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’(اے حبیب ﷺ) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپﷺ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اگر آپﷺ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپﷺ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘ (سورۃ الانعام: 159)۔
اخلاقی ذمہ داریاں
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرمﷺ کی صورت میں ہر مسلمان مومن کیلئے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ مہیا فرما دیا، زندگی کی ہر جہت میں اور ہر کردار میں، انفرادی نشوونما سے لے کر معاشرے کی تشکیل تک ہمیں آقا کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے، ذیل میں چند ایسے امور بیان کئے جا رہے ہیں جن میں عصر حاضر کے اندر معاشرے کے ہر فرد کیلئے نبی کریمﷺ کااسوہ موجود ہے۔
باپ کی ذمہ داری
صاحبِ اولاد ہونا خالقِ کائنات کی بہت بڑی نعمت اور عطا ہے، نبی کریمﷺ نے اپنی شہزادیوں اور شہزادوں (نواسوں) کی بہترین تربیت فرما کر ہر والد کو اس کی اخلاقی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرنے کا مکمل کلیہ عطا فرمایا ہے، بچپن سے لے کر جوانی تک، اولاد کی تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ کے معاملات تک اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے سے لے کر انہیں معاشرہ کا کارآمد فرد بنانے تک، غرضیکہ ہر زاویے سے اولاد کی تربیت میں والدین کا کیا کردار ہونا چاہئے، آقا کریمﷺ نے اسے خود کر کے دکھایا اور سمجھایا ہے۔
حضرت مقدام بن معدیکربؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم اپنے آپ کو جو کھلاؤ گے، وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا، تم اپنی اولاد کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہاری طرف سے صدقہ ہوگا، تم اپنی بیوی کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہارا صدقہ ہوگا اور تم اپنے خادم کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہاری طرف سے صدقہ ہوگا‘‘ (مسند احمد: 3662)
ماں کی ذمہ داری
ماں کی گود بچے کی درس گاہ اوّل ہے، اسی عظیم درس گاہ سے وہ اخلاق حسنہ، اطاعت و فرمانبرداری اور دنیا میں زندگی گزارنے کے سلیقے، ڈھنگ اور طور طریقے لے کر معاشرے کا حصہ بنتا ہے، اس لئے ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس طرز پر کرے کہ ان کے رگ و ریشہ میں دین کی روح پھونک دے اور معاشرے میں اس کی اولادپرامن، سلیقہ شعار اوراخلاق حسنہ سے مزین ہو کر زندگی بسرکرے۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ ماں از خود صفات کاملہ کی حامل ہو اس لئے کہ بچہ جیسے ماں کو دیکھے گا ویسا ہی بننے کی کوشش کرے گا، والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کی دنیا کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت کو بھی سنواریں، قرآن حکیم اور سنت نبویہ کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کو سورتیں اور احادیث زبانی یاد کروائیں جن کا تعلق معاملات اور اخلاقیات سے ہو۔
اولاد کی ذمہ داری
اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی نسبت عطا کی ہے، غرض رشتے بنانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق مقرر فرمائے ہیں، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کرنا ضروری ہے، لیکن والدین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اور اطاعت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ’’ہوں ‘‘ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا : ’’اے ہمارے پروردگار ! تو اُن پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے، تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے‘‘(بنی اسرائیل: 23-25)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ: ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں سے ( میری طرف سے) حسنِ معاشرت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں ، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ ، پھر جو تمہارا زیادہ قریبی (رشتہ دار)ہو ، ( پھر جو اس کے بعد) تمہارا قریبی ہو‘‘ (سنن ابن ماجہ:3658)۔
حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! والدین کا حق ان کی اولاد پر کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: وہی دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں‘‘ (ابن ماجہ: 3662)۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریمﷺ نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا یہ میرا باپ ہے، آپﷺ نے فرمایا: ’’اُن کے آگے مت چلنا، مجلس میں اُن سے پہلے مت بیٹھنا، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گالی مت دینا ‘‘ (المعجم الاوسط، للطبرانی: 4169)
شوہر کی ذمہ داری
درحقیقت خاندان ایک چھوٹا معاشرہ ہے جو دو افراد یعنی میاں بیوی کے ذریعے قائم ہے، قرآن کریم نے ان کے درمیان محبت والفت کا ہدف اطمینان اور سکون کو قرار دیا ہے، بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر شوہروں کو تنبیہ فرمائی: ’’لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو، وہ تمہاری زیر نگین ہیں، تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمہیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم انہیں ہلکی مار، مار سکتے ہو، تم پر انہیں کھلانا اور پلانا فرض ہے‘‘ (صحیح مسلم: 1218)۔
ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کیلئے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کیلئے تم سب سے بہتر ہوں‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح: 3252)۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کیلئے نرم خو ہو‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح:3263)
نبی کریمﷺ کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کرنی چاہیے، کچھ لمحوں کیلئے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے رفاقت کے دوران صبر و تحمل سے کام لینے والا ہو اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔
بیوی کی ذمہ داری
بیوی پر بھی شریعت نے اپنے شوہر کے متعلق کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہیں جن کا خیال رکھنا بیوی پر لازم ہے، احادیث مبارکہ میں ان کا ذکر ملتا ہے، نبی کریمﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے بعد حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے مابین تقسیم کار اس طرح فرمایا کہ باہر کا کام حضرت علیؓ کے ذمہ اور گھر کا کام حضرت فاطمہؓ کے ذمہ (زاد المعاد)۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کر سکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے، تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے (مشکوٰۃ المصابیح:3255)۔
آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ بہترین عورت کونسی ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جسے اس کا شوہر دیکھے تو خوش ہو جائے اور جب وہ اسے کسی چیز کا حکم دے، تو اسے بجا لائے اور اس کے مال اور اپنی ذات کے اعتبار سے کوئی ایسا فعل نہ کرے جو اسے (شوہر کو ) ناپسند گزرے‘‘ (مشکوٰۃالمصابیح: 3272)، بیوی کے ذمہ شوہر کے سامان و مکان کی نگرانی، صفائی ستھرائی اور سلیقہ مندی سے اسے رکھنا، بچوں کی پرورش و تربیت کرنا، شوہر کی دلجوئی و اطاعت کرنا واجب ہے۔
بھائی کی ذمہ داری
والدین کے بعد بہن بھائی کا آپس کا رشتہ بہت قریبی شمار کیا جاتا ہے، والدین کے مرنے کے بعد عموماً ان کے درمیان تعلقات خراب ہونے کا خطرہ رہتا ہے، لہٰذا بھائی بہنوں کے درمیان ناراضیوں کا دروازہ بند کرنے کیلئے والدین کے بعد گھر کے افراد میں سے جس شخصیت کے مقام و مرتبے کو اسلام نے شان و شوکت سے نوازا اور جس کے ادب و احترام کا درس دیا ہے، وہ ہے’’بڑا بھائی‘‘، نبی کریمﷺنے ارشادفرمایا: ’’بڑے بھائی کا حق اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پر ایسا ہے جیسا باپ کا حق اپنے بیٹے پر‘‘ (شعب الایمان، حدیث: 7929)
رشتہ دار کی ذمہ داری
قرآن کریم نے جہاں دیگر حقوق و ذمہ داریاں بیان کیں، وہیں ’’وات ذا القربی‘‘ فرما کر دیگر اہل قرابت و رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور ان کے حقوق کی رعایت کی بھی تاکید فرمائی ہے، نوجوانوں کے گھر خاندان میں بھائیوں، بہنوں اور دیگر افرادِ خاندان کے ساتھ اچھے اخلاق و کردار اور آپسی تعلقات میں صلہ رحمی وغیرہ کو بڑی خاص اہمیت دی ہے، انسان کے اپنے گھریلو و خاندانی و قرابتی رشتہ کو حکمت کی اصطلاح میں ’’تدبیر منزل‘‘ کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔
حق قرابت اور صلہ رحمی کے متعلق حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رحم (یعنی حق قرابت) رحمان سے مشتق ہے، اللہ تعالیٰ نے اس (رحم) سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا، میں اسے جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا (یعنی قطع تعلق کرے گا) میں (بھی) اس کو توڑوں گا‘‘(سنن الکبری للبیہقی، حدیث13214)۔
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 مقالے بھی شائع ہوچکے ہیں۔