بُخل: دنیا و آخرت تباہ کرنے والا عمل

Published On 08 November,2024 02:03 pm

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ’’اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں ایسے کفران نعمت کرنے والوں کیلئے ہم نے رسوا کن عذاب رکھا ہے‘‘ (النساء:37)۔

اس آیت مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ نے اپنے کرم سے اگر کسی کو دنیاوی دولت، روپیہ پیسہ اور شہرت سے نوازا ہے اور وہ شخض اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا اور اس کو چھپا چھپا کر رکھتا ہے تو اس کا یہ عمل اللہ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ ہے اور اس کیلئے عذاب کا باعث بنے گا، اگر اس مال و دولت پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے تو وہ خوش ہوگا اور نعمت میں اضافہ فرما دے گا۔

چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’تو (ان نعمتوں پر) مجھے یاد کرو، میں تمہیں (عنایت سے) یاد رکھوں گا اور میری (نعمت کی) شکر گزاری کرو‘‘ (البقرہ: 152)۔

جب کسی نعمت کا بندہ شکر گزار ہوتا ہے تو اللہ کریم اپنا فضل و کرم سے اس بندے کے شکر کے صلے میں اور زیادہ فرما دیتا ہے اور یہ بہت غلط ہے کہ اللہ کسی پر اپنی نوازش اور کرم کرے اور بندہ اس کو چھپائے اور اپنے آپ کو خستہ حال اور لاچار و مجبور ظاہر کرے۔

ایسا کرنا اللہ کی نعمت کی ناشکری ہے اور اللہ بھی جب کسی کو اپنی نعمت سے نوازتا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اس کی عطا کردہ نعمت کا اثر اس بندے کے رہن سہن، کھانے پینے، لباس، مسکن، لین دین غرض ہر چیز پر پڑے، اس کے ہر عمل سے اللہ کی نعمت کے ملنے کا اظہار شکرانہ کی صورت میں ہو، یہ نہ ہو کہ اللہ تو اس کو اپنے فضل سے نواز رہا ہو اور وہ اپنے عمل قول و فعل سے اس کی نعمتوں کی ناشکری کرے، دراصل وہ ہر کس و ناکس پر اپنی مجبوری اس لئے ظاہرکرتا ہے تاکہ جو فضل اللہ نے اس پر کیا ہے اس میں دوسروں کو حصے دار نہ بنانا پڑے۔

قرآن پاک رب کریم ارشاد فرماتا ہے کہ ’’جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا، ہرگز نہیں وہ توڑ ڈالنے والی آگ میں پھینکا جائے گا‘‘ (الھمزہ:2-4)، معلوم ہوا کہ جس نے مال جمع کیا اور اسے نہ اپنے اوپر خرچ کیا نہ اپنے اہل و عیال پر اور نہ ہی دوسرے ضرورت مندوں پر تو ایسے شخض سے اللہ بہت سخت حساب لے گا۔

جو مال و دولت اللہ اپنے کرم سے کسی بندے کو دیتا ہے اس میں غریبوں اور ناداروں کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے، سب سے پہلا حق خاندان کے غریب و نادار رشتے داروں کا ہوتا ہے، اس کے بعد یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کا حق ہے، اللہ نے جو بھی مال دیا ہے، اسے تمام حق داروں میں درجہ بدرجہ تقسیم کرنے سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے، یہ صحیح نہیں ہے کہ کوئی ان حق داروں کا حصہ بھی خود ہڑپ کر لے۔

ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور جو لوگ سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک سزاکی خبر دے دو‘‘(سورہ توبہ: 34)۔

ضرورت سے زیادہ سونا چاندی اور مال ودولت جمع کرنے کی سخت ممانعت ہے، اسے غریبوں اور ناداروں میں تقسیم نہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے، ارشاد ربانی ہے ’’اور اپنا ہاتھ نہ تو اپنی گردن سے باندھ رکھ کہ خرچ نہ کرے اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے تاکہ ملامت زدہ اور حسرت زدہ بن کر بیٹھا رہ جائے‘‘ (بنی اسرائیل: 29)

اللہ کو ہر کام میں اعتدال بہت پسند ہے، حد سے زیادہ اور حد سے کم دونوں ہی عمل نقصان دہ ہیں، اعتدال پسندی بہترین طریقہ کار ہے، ارشاد ربانی ہے ’’اور ہم نے تمہیں (ایسی) جماعت بنا دیا ہے جو (ہر پہلو سے) اعتدال پر ہے (البقرہ: 143)۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہ ہے کہ بندہ نہ تو کنجوسی کرے اور نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرے بلکہ اپنے ہر عمل میں اعتدال کا مظاہرہ کرے، کنجوسی کی بناء پر انسان اللہ کے بہت سے احکامات کی بجا آوری میں ناکام رہتا ہے، انسان کو چاہیے کہ نہ تو وہ کنجوسی کر کے اللہ کی ناراضی مول لے اور نہ سب کچھ دے ڈالے کہ اپنی جائز ضروریات کیلئے بھی کچھ نہ رکھے۔

ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور جس نے بخل کیا اور (اپنے اللہ سے) بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا اس کیلئے سخت عذاب ہے، اور اس کا مال آخر اس کے کس کام آئے گا جبکہ وہ ہلاک ہو جائے گا‘‘ (سورۃ اللیل: 8-11)۔

جس شخص نے کنجوسی سے مال ودولت جوڑ جوڑ کر رکھا، اپنی ذات اپنے عیش و آرام اور اپنی دلچسپیوں پر تو دل کھول کر خرچ کیا مگر نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تنگ دلی کا مظاہرہ کیا وہ بڑے خسارے میں رہے گا، جو مال اس نے جوڑ جوڑ کر رکھا ہے، وہ اللہ ہی کی امانت ہے، اللہ نے وہ مال اسے امانت کے طور پر دیا ہے، اگر وہ یہ امانت غریبوں اور ضرورت مندوں کو نہیں دے گا تو خیانت کا مرتکب ہوگا، یہ جمع کیا ہوا مال اس کے مرنے کے بعد کس کام آئے گا؟ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اور جو دل کی تنگی (یا نفس کے بخل)سے محفوظ رہے ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘ (سورۃ التغابن :16)

زیادہ تر لوگ اپنے نفس کے بخل کی بناء پر ضرورت مندوں کی مدد نہیں کرتے اور نفس کے غلام بنے رہتے ہیں جو انہیں بخل کی طرف مائل رکھتا ہے اور اپنے علاوہ کسی دوسرے پر خرچ کرنے سے روکتا ہے وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل میں اللہ کی امانت میں مسلسل خیانت کرتے رہتے ہیں ایسے لوگ بڑے نقصان میں ہیں لیکن جو لوگ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں اللہ اپنے فضل سے انہیں اور بھی دے گا جو نیکی کے کاموں میں خرچ نہیں کرتے وہ تنگ دل ہیں اور جو ضرورت کے وقت ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں وہی فلاح پانے والا ہے۔

ایسے شخض کیلئے اللہ نے بہت انعام رکھا ہے جو شخض اپنے نفس کی بے پناہ خواہشوں کے باوجود کسی دوسرے کی مدد کرے اللہ اسے اور زیادہ عطا فرماتا ہے اور اس کے رزق میں وسعت عطا فرماتا ہے، اللہ ہمیں بخل جیسی لعنت سے بچائے رکھے اور دیا ہوا مال اپنی راہ پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی اپنے حبیب پاکﷺ کے صدقے توفیق عطا فرمائے، آمین۔

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ پنجاب، خطیب جامعہ الطافیہ سلطان الذاکرین ہیں، 27 سال سے مختلف جرائد کیلئے لکھ رہے ہیں۔