اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف کانفلکٹ ریزولوشن کا میڈیا کے عالمی بیانیوں میں کردار پر سیمینار

Published On 23 December,2024 08:04 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف کانفلکٹ ریزولوشن (IICR) نے "میڈیا کے اثرات کی تفہیم: معلومات کی تشریح اور معاشرے پر عالمی نقطہ نظر" کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا۔

اس تاریخی ایونٹ میں ماہرین تعلیم، میڈیا اور عوامی پالیسی کے ماہرین کو اکٹھا کیا گیا تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ میڈیا کس طرح معاشرتی تصورات اور سیاسی منظرناموں کو تشکیل دیتا ہے۔

سیمینار کی نظامت ڈاکٹر شبانہ فیاض، ایسوسی ایٹ پروفیسر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد نے کی، نمایاں مقررین میں سابق سینیٹر مشاہد حسین سید، ڈاکٹر نذیر حسین، ایئر مارشل (ریٹائرڈ) فرحت حسین، سابق وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی، میڈیا ماہر ڈاکٹر فرقان راؤ اور تحقیقاتی صحافی فخر کاکاخیل شامل شامل تھے۔

اپنے افتتاحی کلمات میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور بانی IICR صباح اسلم نے میڈیا، عوامی تصورات اور معاشرتی نتائج کے درمیان اہم تعلق پر زور دیا، انہوں نے میڈیا خواندگی کو فروغ دینے، تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی، اور نوجوانوں کو خاص طور پر ذمہ دار میڈیا استعمال کرنے کی ترغیب دینے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

سیمینار کا مقصد بیانیے تشکیل دینے میں میڈیا کے کردار، غلط معلومات کے خاتمے اور ثقافتی تفہیم کے فروغ کا جائزہ لینا تھا۔

سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے ای یو ڈس انفولیب کے کردار کو اجاگر کیا، جس نے عالمی سطح پر بھارت کی پروپیگنڈا مہم کو بے نقاب کیا، جس میں اے این آئی اور سریواستو گروپ جیسی مثالیں شامل ہیں۔

انہوں نے تاریخی اور معاصر واقعات میں مغربی میڈیا کی طاقتور اثرات پر روشنی ڈالی، جیسے 1953 کا ایرانی انقلاب اور عراق جنگ۔ 2024 کے امریکی انتخابات کے دوران میڈیا کی بدلتی ہوئی حرکیات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں میڈیا کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔

ایک تجربہ کار صحافی اور سابق وفاقی وزیر مرتضیٰ سولنگی نے صحافت کے بنیادی اصولوں پر گفتگو کی اور عوام کے جاننے کے حق کی وکالت کی۔

انہوں نے میڈیا کی آزادی کو درپیش کارپوریٹ اثر و رسوخ، مارکیٹ قوتوں، اور غیر ریاستی عناصر کو اہم چیلنجز قرار دیا، انہوں نے غلط معلومات کی عالمی وبا پر زور دیا اور اس کے خاتمے کے لیے ڈیجیٹل خواندگی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

تحقیقاتی صحافی فخر کاکاخیل نے "کی بورڈ وارئیرز" کے پھیلاؤ اور مغربی حمایت یافتہ غلط معلومات کی نشاندہی کی، جس سے پاکستان کی ترقی، خاص طور پر سی پیک کے حوالے سے رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔

انہوں نے سنسر شپ اور غلط معلومات سے پیدا ہونے والے ڈیجیٹل انتشار سے نمٹنے کے لیے بہتر میکانزم کی ضرورت پر زور دیا۔

میڈیا امور کے ماہر ڈاکٹر فرقان راؤ نے سیاسی نفرت انگیز تقریر کے خطرات پر روشنی ڈالی، جس سے معاشرتی اور ثقافتی تقسیم مزید گہری ہو رہی ہے، انہوں نے میڈیا سے متعلق چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کثیر شعبہ جاتی نقطہ نظر کی وکالت کی اور میڈیا معلوماتی خواندگی کے فروغ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

اپنے کلیدی خطاب میں ایئر مارشل (ریٹائرڈ) فرحت حسین نے بھارتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا، جنہیں بھارتی میڈیا کی مدد سے طاقتور بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

انہوں نے افراد کو تنقیدی سوچ سے لیس کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی تاکہ وہ حقائق اور پروپیگنڈے کے درمیان فرق کر سکیں، انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا ضوابط کو معقول بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ میڈیا کا اثر قومی حدود سے تجاوز کر جاتا ہے۔

ڈاکٹر نذیر حسین نے اختتامی کلمات میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے کردار پر روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ مرکزی دھارے کے میڈیا کی محدود معلومات کی وجہ سے سوشل میڈیا زیادہ توجہ حاصل کر رہا ہے، انہوں نے اس رجحان کی بنیادی وجہ میڈیا ہاؤسز کی کارپوریٹ ملکیت کو قرار دیا۔