190 ملین پاؤنڈ کیس فیصلہ اور ممکنہ اثرات

Published On 16 January,2025 12:21 pm

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) اس وقت ملکی سیاست میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کے جلد آنے والے فیصلے کے چرچے ہیں، یوں تو بانی پی ٹی آئی کے خلاف درجنوں کیسز بنے اور کئی میں سزائیں بھی ہوئیں مگر 190 ملین پاؤنڈ کیس پر بحث دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ کافی اہمیت بھی اختیار کرتی جا رہی ہے۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں ہونے جا رہا ہے جب حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکراتی عمل تیسرے سیشن تک پہنچ چکا ہے، نہ صرف فلور آف دی ہاؤس پر بلکہ ٹی وی سکرینوں پر بھی 190 ملین پاؤنڈ کیس کے آنے والے فیصلے کی ہی گونج ہے، پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ جلد آنا چاہیے کیونکہ یہ کیس بھی ماضی کے کیسز کی طرح ٹھہر نہیں پائے گا جبکہ حکومت نے اس کیس کی بنیاد پر بانی پی ٹی آئی کی کرپشن کا بیانیہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

190 ملین پاؤنڈ کیس میں سابق وزیراعظم پر الزام ہے کہ انہوں نے شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر 190 ملین پاؤنڈ کی رقم‘ جو کہ حکومتِ پاکستان کی ملکیت تھی‘ اسے کابینہ کو گمراہ کر کے غلط مد میں ایڈجسٹ کیا اور اس کے عوض 458 کنال اراضی اور رقم اور دیگر فوائد حاصل کئے، یہ رقم برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق حکومتِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے کابینہ سے بند لفافے میں منظوری لے کر ایک پراپرٹی ٹائیکون کے ذمہ واجب الادا رقم کی مد میں ایڈجسٹ کر دیا گیا۔

اس فائدے کے بدلے سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے مبینہ طور پر القادر یونیورسٹی کے لئے عطیات کی مد میں 458 کنال اراضی کے ساتھ ساتھ 28 کروڑ روپے سے زائد رقم بھی پراپرٹی ٹائیکون سے حاصل کی، بانی پی ٹی آئی پر الزام ہے کہ انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور بشریٰ بی بی نے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی ٹرسٹی بن کر اس میں سہولت کاری کی، صرف یہ نہیں بلکہ موہڑہ نور بنی گالہ کے قریب 240 کنال سے زائد زمین بھی حاصل کی گئی۔

القادر یونیورسٹی پراجیکٹ 26 دسمبر 2019ء کو عمران خان، بشریٰ بی بی، زلفی بخاری اور ظہیر الدین بابر اعوان کے ساتھ بطور ٹرسٹ رجسٹر ہوا، دس جولائی 2020ء کی ترمیم کے مطابق اس وقت صرف عمران خان اور بشریٰ بی بی اس کے قانونی ٹرسٹیز ہیں۔

نیب قانون کے سیکشن 9(A)(2) کے تحت غور کئے بغیر قیمتی چیز حاصل کرنا، 9(A)(4) کے تحت کرپشن کے ذریعے جائیداد، قیمتی چیز، مالی فائدہ حاصل کرنا، 9(A)(6) کے تحت اتھارٹی کا غلط استعمال اور 9(A)(12) کے تحت جرم میں مدد اور معاونت جرم ہیں، نیب قانون کے سیکشن دس کے تحت کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے مذکورہ بالا جرائم کی سزا 14 سال تک قید اور جائیداد کی ضبطگی ہے۔

اس کیس میں دلچسپ صورتحال اس لئے بھی بن چکی ہے کہ اس کے فیصلے کی تاریخ میں تین مرتبہ تبدیلی ہو چکی ہے، احتساب عدالت نے پہلے 23 دسمبر کے لئے کیس مقرر کیا، اس کے بعد 6 جنوری اور 13 جنوری کی تاریخیں مقرر کی گئیں، مگر 13 جنوری کو معزز جج نے یہ فیصلہ سنانے کے بجائے 17 جنوری کی تاریخ مقرر کر دی، عدالت کی جانب سے بتایا گیا کہ چونکہ ملزمان اور ان کے وکلا عدالت میں پیش نہیں ہوئے یہی وجہ ہے کہ کیس کا فیصلہ مؤخر کیا جا رہا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ فیصلہ سنانے کا وقت دن گیارہ بجے دیا گیا تھا مگر ساڑھے دس بجے ہی ملزمان کے پیش نہ ہونے پر فیصلہ مؤخر کر دیا گیا، پاکستان تحریک انصاف کی لیڈر شپ یہ وضاحت پیش کر رہی ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے میں تاخیر کا کسی ڈیل سے تعلق نہیں، ویسے یہ بات حقیقت پر مبنی بھی ہے کہ اس کیس کے فیصلے کا مذاکراتی عمل سے کوئی تعلق نہیں۔

قوی امکان ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ اس بار دی گئی تاریخ پر سنا دیا جائے، اس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد ایک بات بہت اہم ہوگی جب اُسی روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے مزید چار ججز کے تقرر کے لئے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہو رہا ہوگا اور اس اجلاس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد سمیت کئی محرکات تبدیل ہو چکے ہوں گے۔

دوسری طرف حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکراتی عمل کا تیسرا دور آج ہونے جا رہا ہے، کئی روز کے تعطل کے بعد مذاکراتی عمل کے تیسرے فیز میں پاکستان تحریک انصاف تحریری طور پر اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھنے جا رہی ہے جس میں کارکنوں کی رہائی اور نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام ہے، تحریک انصاف کے مطالبے پر مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ اڈیالہ جیل میں ملاقات بھی کروائی گئی مگر یہ ملاقات نگرانی کے ماحول میں ہوئی۔

تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ یہ ملاقات زیر نگرانی ماحول کے بجائے بغیر نگرانی کے ہونی چاہیے جو فی الحال نا ممکن لگتا ہے، مگر یہ خوش آئند ہے کہ غیریقینی صورتحال میں بالآخر دونوں فریق ایک مرتبہ پھر آج سپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں پارلیمنٹ کی عمارت میں بیٹھنے جا رہے ہیں، اس بیٹھک کے 24 گھنٹوں بعد 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ بھی آجائے گا، اگر اس میں بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو سزا ہوگئی تو یہ مذاکراتی عمل پر کافی حد تک منفی طور پر اثر انداز ہوگا۔

مذاکراتی عمل میں پاکستان تحریک انصاف کے دو ابتدائی مطالبات سامنے آنے کے بعد یہ بات بھی قابلِ غور ہوگی کہ حکومت کے پاکستان تحریک انصاف کیلئے کیا مطالبات ہیں؟ پاکستان تحریک انصاف کے پاس حکومت کو دینے کیلئے کیا ہے؟ کیا پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا پر حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف جاری مہم کو ختم کرنے پر راضی ہو جائے گی؟

اگر پی ٹی آئی کے مطالبات کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کے کئی کارکن تو پہلے ہی رہا ہو چکے، کچھ کے معاملات عدالتوں میں ہیں، کچھ کو سزا ہو چکی، ایسے میں اس مطالبے کو جزوی طور پر قابلِ عمل کہا جا سکتا ہے، دوسرا مطالبہ‘ جو جوڈیشل کمیشن کے قیام سے متعلق ہے، کیا پاکستان تحریک انصاف یہ لکھ کر دینے کو تیار ہوگی کہ کمیشن کی رپورٹ کی فائنڈنگ کو وہ ہر حال میں تسلیم کرے گی؟ اگر تحریک انصاف ایسا کرنے کیلئے رضا مند ہو جاتی ہے تو وہ مستقبل میں اپنے ہی مطالبے کے پھندے میں پھنس سکتی ہے۔