شرم وحیاء: اسلامی معاشرے کے لازمی جزو

Published On 14 February,2025 11:45 am

لاہور: (مولانا قاری محمد سلمان عثمانی) شرم و حیا،عفت و پاکیزگی ایک مسلمان کی بنیادی شناخت اور اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے، اسلام نے جو معاشرتی نظام تشکیل دیا ہے اس میں شرم و حیا اورعفت و پاکیزگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ’’حیا‘‘ ایمان کا ایک بنیادی شعبہ ہے، اسی بنیاد پر فرمایا گیا جب تم حیا کو کھو دو، تو جو چاہے کرو، یعنی انسانی زندگی سے اگر شرم و حیا معدوم ہو جائے تو ایسی زندگی کی کوئی قدرو منزلت نہیں، اس لئے شرم و حیا اسلامی معاشرے کے لازمی جزو ہیں۔

اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلم معاشرہ برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتا ہے، دنیا میں اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب بے حیائیوں پر روک لگانے والا نہیں، قرآن و حدیث میں فحاشی کی بنیاد یعنی آنکھ کی بے احتیاطی کو سختی سے قابو میں رکھنے کی تلقین کی گئی ہے، یہ ایسی بنیاد ہے اگر صرف اس پر ہی قابو پا لیا جائے تو ساری بے حیائیاں دنیا سے رخصت ہو سکتی ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبیﷺ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘‘ (سورہ النور: 30)، سورہ احزاب میں مومن عورتوں سے خطاب میں ارشاد فرمایا گیا ’’تم اپنے گھروں کے اندر رہو اور بے پردہ ہو کر باہر نہ نکلو جس طرح پہلے زمانے کے دور جاہلیت میں عورتیں بے پردہ باہر نکل کر گھومتی پھرتی تھیں‘‘ (سورہ احزاب:59)۔

حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کی حفاظت کرے گا، میں اس کے بدلے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا (طبرانی)، حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’بے حیائی جب کسی میں ہوتی ہے تو اسے عیب ناک بنا دیتی ہے اور شرم و حیا کسی میں ہوتی ہے تو اُسے زینت دیتی ہے‘‘(سنن ترمذی)، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے والا ہے جبکہ بے حیائی ظلم میں سے ہے اور ظلم جہنم میں لے جانے والا ہے (جامع ترمذی)۔

رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو اس کی اللہ کے خوف سے حفاظت کرے، تو اللہ اس کے عوض اسے ایسا ایمان عطا کرے گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ (الترغیب و الترہیب: 42/3)۔

کسی غیرمحرم پر نگاہ ڈالنا، بالخصوص جبکہ بدنظری کے ساتھ نگاہ ڈالی جائے، خواہ غیرمحرم کی تصویر ہی کیوں نہ ہو اور ایسی چیز کو دیکھنا جس سے شریعت نے روکا ہو، اس سے اجتناب دین کا بنیادی تقاضا ہے، بدنظری بہت سے حرام کاموں کو جنم دیتی ہے جو انسان کیلئے مہلک ثابت ہوتے ہیں، وہ حرام کام آدمی کو رسوا کر دیتے ہیں، جو کبھی عزت والا تھا آج وہ کہیں منہ نہیں دکھا سکتا، بدنظری سے بچ کر آدمی سیکڑوں گناہوں اور آفتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

اسلام خواتین کو وہ عزت اور تحفظ فراہم کرتا ہے جو درحقیقت مغرب کو میسر نہیں ہے جبکہ کچھ بدنصیب خواتین اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مغرب کی عورت آزاد ہے بلکہ میری نظر میں مغرب کی عورت سے زیادہ مظلوم کوئی عورت نہیں ہے لیکن ہم صحیح اور غلط جانے بغیر مغرب کی اندھا دھند تقلید پر کئے جا رہے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے پر ایک دھوم مچ جائے گی ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ویلنٹائن ڈے کے نام پر اپنی شرم و حیا کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں۔

ارے ہمیں تو اس شرم و حیا کا پیکر بن جانا چاہیے، ہمیں تو اسلام نے فلاح کا راستہ دکھایا ہے، فلاح و کامیابی ہے ہر اس شخص کیلئے جو دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہے، حجاب، پردہ، حیا یہ سب میرے اللہ کا حکم ہے تو پھر کیوں نہ اس کی تعمیل کروں میں کیوں نہ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کروں، آخر ہم حقوق نسواں کے نام پر کونسی آزادی چاہتے ہیں؟ بے حیائی کو پروموٹ کر کے ہم کون سے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

حیا ایمان کی علامت ہے، پاکیزگی کی علامت ہے اور اللہ پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے، حیا ایمان کی تکمیل ہے، جس شخص میں حیا ہے تو اس میں ایمان بھی موجود ہے اور جس میں حیا نہیں تو اس میں ایمان بھی موجود نہیں کیونکہ شیطان کا پہلا وار حیا پر ہوتا ہے۔

حضور اکرمﷺ نے ایک دفعہ پوچھا کہ ’’اے فاطمہ! مسلمان عورت کی سب سے بڑی صفت کیا ہونی چاہیے؟ حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا کہ ’’ابا جان! عورت کو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے اور اولاد پر شفقت کرے اپنی نگاہ نیچی رکھے، اپنی زینت چھپائے اور نہ خود کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اس کو دیکھنے پائے، حضورﷺ یہ جواب سن کر بہت ہی مسرور ہوئے، کتنا پیارا جواب تھا جانِ پدر کا اور ہم سب کیلئے کتنی پیاری نصیحت بھی۔

خواتین کے سامنے ہماری صحابیاتؓ کی طرز زندگی ہے، جگہ جگہ قرآن کریم میں ارشادات کے ذریعے ہمارے لئے رہنمائی ہے پھر تو ہمارے پاس بھٹکنے کا کوئی معقول جواز ہے ہی نہیں، پس تو پھر ہمیں آج سے عہد کرنا ہے کہ ہمیں مغربی روایات کو ختم کر کے حیا کو فروغ دینا ہے، ویلنٹائن ڈے کی مخالفت میں ہمیں یوم حیا سے اپنی نسلِ نو کو آشنا کرنا ہے، بے حیائی کے سیلاب سے خود کو بھی بچانا ہے اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دینی ہے۔

حضورﷺ نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے (مسلم: 15)، اس تہوار کا اسلامی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کو لبرل، سیکولر اور آزاد خیال سمجھنے والے لوگ مناتے ہیں لیکن مذہبی سوچ کے حامل لوگ اسے ’’یوم حیا‘‘کے طور پر منائے اور بے حیائی اور فسق والی زندگی سے توبہ کر کے شریعت کے احکامات کی پابندی اور پاکیزہ اسلامی زندگی گزارنے کا عزم کریں۔

حیا ایمان کا حصہ ہے با حیا زندگی ایمان کا حسن ہے اور اس کا کلچر عام کرنے کیلئے خود احتسابی کرنی ہوگی اپنی زندگی کو سنت کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی ختم نبوت اسلامک سنٹر کے ناظم اور کالم نگار ہیں، ان کے مضامین بیشتر اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔