خیبر پختونخوا اور نظریاتی کارکنوں کا زوال

Published On 15 February,2025 01:55 pm

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) جب پنجاب میں الیکٹرک بسیں سڑکوں پر دوڑ رہی ہوں، جدید ہسپتال عوام کو بہترین علاج فراہم کر رہے ہوں، تعلیمی اصلاحات کے تحت لیپ ٹاپ تقسیم ہو رہے ہوں اور تجاوزات کے خلاف سخت کارروائیاں جاری ہوں، سندھ میں فلائی اوورز بن رہے ہوں، کراچی میں صفائی کے نئے منصوبے چل رہے ہوں اور اندرون سندھ صحت کے مسائل کے حل کے لیے کام ہو رہا ہو تو تب خیبر پختونخوا کے عوام یہ سوال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمارا صوبہ ترقی کی دوڑ میں اتنا پیچھے کیوں رہ گیا؟

پشاور جسے پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا جو کبھی ترقی اور خوبصورتی کی علامت تھا آج بنیادی سہولتوں سے محروم نظر آتا ہے، صاف پانی ہر گھر تک پہنچ سکا نہ صحت کا نظام بہتر ہو سکا، نہ تعلیمی ادارے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکے، صوبائی اسمبلی میں روز سیاسی الزامات کی گونج سنائی دیتی ہے مگر عوام کے حقیقی مسائل پر بات کرنے والا کوئی نہیں۔

مئی 2024 سے اب تک خیبر پختونخوا حکومت نے صرف 30 نئے بل منظور کیے مگر ان میں زیادہ تر سرکاری ملازمین کی مراعات اور محکمانہ امور سے متعلق تھے، عوامی فلاح کے منصوبے کہیں نظر نہیں آتے، اس دوران صوبے کا قرض صرف ایک سال میں 28 فیصد بڑھ کر 680 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔

صوبائی اسمبلی کے روزانہ اجلاس منعقد کرنے کے باوجود بات چیت بنیادی طور پر سیاسی الزام تراشی پر مرکوز رہتی ہے اور عوامی مسائل کو تسلیم کرنے اور ان کو حل کرنے کی مخالفت کرتی ہے، مئی 2024 سے موجودہ حکومت نے صرف 30 نئے بل منظور کیے ہیں جن میں سے صرف 7 عوامی خدشات کو دور کر رہے ہیں، بلوں کی اکثریت سرکاری مراعات، سرکاری ملازمین اور محکمانہ امور پر مرکوز ہے۔

خیبرپختونخوا کے قرضوں کا ذخیرہ ایک ہی سال میں 28 فیصد سے زائد بڑھ کر تقریباً 680 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس کے نتیجے میں ترقی کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچا ہے، 30 جون 2024 تک بقایا قرض کا پورٹ فولیو بڑھ کر 679.547 بلین روپے ہو گیا جو کہ 30 جون 2023 تک 530.723 بلین روپے کی بقایا رقم سے 28.04 فیصد (تقریباً 149 بلین روپے) کے اضافے پر ہے۔

مالی بدانتظامی کا عالم یہ ہے کہ پنشن فنڈ سے 10 ارب روپے نکال کر صوبائی خزانے میں "ڈیویڈنڈ" کے نام پر ڈال دیے گئے جو کہ ایک سنگین مالی بے ضابطگی ہے، محکمہ جنگلات و ماحولیات نے پرانے اور غیر شفاف مالیاتی نظام کے تحت اربوں روپے نقد تقسیم کیے جس پر آڈٹ کے سخت اعتراضات اٹھ چکے ہیں۔

یہ سب سوال ہیں جن کا جواب کوئی دینے کو تیار نہیں، اس سب کا موازنہ پنجاب سے کیا جائے تو پنجاب نے گوگل انٹرنیشنل کے تعاون سے 10 ارب روپے کی ایک لیپ ٹاپ سکیم کے اجراء سمیت اہم اقدامات کا اعلان کیا جو سالانہ 300000 سے زائد بچوں کو ڈیجیٹل مہارت کی تربیت فراہم کریں گے۔

پنجاب کی وزیراعلیٰ نے مشین لرننگ، مصنوعی ذہانت، ای مرچنڈائزنگ اور سٹارٹ اپس سکلز ڈویلپمنٹ پروگراموں میں اقدامات کی بھی نقاب کشائی کی جس کا مقصد پنجاب کے ہر ضلع میں 4000 بچوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینا ہے۔

ہر ضلع میں کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے جائیں گے، سکولوں کے کھیلوں کے میدانوں کو کمیونٹی کھیلوں کے میدانوں میں تبدیل کیا جائے گا۔

انہوں نے یقین دلایا کہ تعلیمی لحاظ سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلباء کو ان کی یونیورسٹی فیس ان کی طرف سے ادا کی جائے گی، کم از کم اجرت 1000 روپے بڑھا کر 37000 کر دی گئی ہے اور نظام نافذ کیا جا رہا ہے تاکہ کارکنوں کو ان کی پوری اجرت ملے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا خیبر پختونخوا کے عوام ہمیشہ اسی بدانتظامی اور زوال کا شکار رہیں گے یا کوئی امید کی کرن نظر آئے گی؟

پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کا زوال
دوسری جانب تحریکیں ہمیشہ ان لوگوں کے خون پسینے سے پروان چڑھتی ہیں جو اپنے نظریے کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں مگر تحریک انصاف میں وفادار کو بے وفائی کی سزا دی گئی، جن لوگوں نے دن رات اس جماعت کا بیانیہ عوام تک پہنچایا وہ آج یا تو نظر انداز کر دیے گئے ہیں یا سائیڈ لائن کر دیے گئے ہیں۔

شیر افضل مروت جو ایک نظریاتی کارکن کے طور پر جانے جاتے تھے جنہوں نے پارٹی کے لیے قربانیاں دیں حتیٰ کہ عوام کے سامنے اپنے منہ پر سینیٹر افنان اللہ سے تھپڑ بھی برداشت کیا ہمیشہ کہتے تھے کہ عمران خان کا کیس لڑنے کی فیس نہیں لوں گا کیونکہ ان کا دیدار ہی میری فیس ہے انہیں بھی کنارے لگا دیا گیا ہے۔

یہی سلوک عمران خان کی بہن علیمہ خاتون کے ساتھ بھی روا رکھا گیا کیونکہ ان کی موجودگی بشریٰ بی بی کے ایجنڈے کے خلاف تھی، ایسے ہی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈا پور کی جگہ جنید اکبر کو پارٹی کا کے پی صدر مقرر کر دیا جس نے عمران کی محبت میں جیل کاٹی۔

سب کا یہی خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی اب بات کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ قابل بھروسہ شخص نہیں ہیں کیونکہ ان کی طرف سے بہت سے وعدے کیے گئے لیکن زیادہ تر پورے نہیں ہوئے۔

عمران خان نے کہا کہ قرض لینے سے پہلے میں خودکشی کر لوں گا اور ان کی حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لیے، عمران خان اور ان کے ساتھی بہت بچگانہ انداز کے لیے جانے جاتے ہیں، وہ کئی بار بلاول کی نقل کرتے ہوئے ان کے لہجے پر طنز کر چکے ہیں، ان کے موجودہ وزراء باقاعدگی سے دوسرے سیاستدانوں کو غلط القاب دے کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

یہ انداز کسی بھی تحریک کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے، جب اصولوں کو چھوڑ کر ذاتی پسند و ناپسند کو معیار بنا لیا جائے تو تحریکیں زندہ نہیں رہتیں بلکہ قصہ پارینہ بن جاتی ہیں۔