اوورسیز کنونشن اور پاکستانی سیاست!

Published On 17 April,2025 11:04 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) 2022ء کے بعد پہلی مرتبہ ایسا موقع آیا ہے جب حکومت کو عوامی سطح پر بڑا مثبت رسپانس ملا ہے، جیسا ردعمل اوورسیز کنونشن میں سمندر پار پاکستانیوں نے دیا یہ حیران کن تھا۔

اس سے قبل یہ تاثر عام تھا کہ سمندر پار پاکستانیوں کا رجحان پاکستان تحریک انصاف کی جانب ہے، اوورسیز پاکستانیوں کو پی ٹی آئی کا سپورٹر تصور کیا جاتا تھا، خاص طور پر اپریل 2022 ء میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس تاثر کو مزید تقویت ملی، کہا جانے لگا کہ سمندر پار پاکستانی اب بیرون ملک سے ترسیلات زر بھجوانے میں کمی کر دیں گے۔

بانی پی ٹی آئی کی جانب سے چند ماہ قبل ترسیلات زر کی بائیکاٹ مہم چلانے کی ہدایت بھی دی گئی، سمندر پار پاکستانیوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ پاکستان میں ترسیلاتِ زر بھجوانا بند کر دیں تاکہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو دھچکا لگے اور حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکے مگر سمندر پار پاکستانیوں نے بانی پی ٹی آئی کے اس پیغام پر کان نہ دھرے اور ترسیلات زر پہلے سے زیادہ بھجوائیں، اس طرح مارچ 2025 ء میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی مہینے میں ترسیلات زر 4 ارب ڈالرز کی حد عبور کر گئیں۔

سٹیٹ بنک نے اپنے اعلامیے میں بتایا ہے کہ مارچ 2025ء میں ترسیلات زر کا حجم 4.1 ارب امریکی ڈالر رہا، مرکزی بنک کے مطابق ترسیلات زر میں سالانہ بنیاد پر 37.3 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، مارچ کے مہینے میں سب سے زیادہ رقم سعودی عرب سے 98 کروڑ ڈالر بھجوائی گئی، دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات رہا جہاں سے پاکستانیوں نے 84 کروڑ ڈالرز سے زائد کی رقوم بھجوائیں، برطانیہ سے 68 کروڑ ڈالرز جبکہ امریکا سے اکتالیس کروڑ ڈالرز کی ترسیلاتِ زر ایک ماہ کے دوران موصول ہوئیں۔

یہ ٹرینڈز بتا رہے ہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کے دل کسی سیاسی جماعت کیلئے نہیں پاکستان کیلئے دھڑکتے ہیں اور ملک سے دور رہ کر اس کی خدمت کرنے والے سیاسی وابستگیوں سے بالا تر اور حقیقت پسند ہو کر ترسیلات زر اپنے ملک بھجواتے ہیں اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔

موجودہ رجحان کو دیکھتے ہوئے رواں مالی سال میں ترسیلات زر کے پہلے لگائے گئے تخمینے پر دو مرتبہ نظر ثانی کی گئی، مالی سال کے آغاز میں بیرون ملک سے آنے والی رقوم کا تخمینہ 31 ارب ڈالرز لگایا گیا تھا، اس کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر اس پر نظر ثانی کی گئی اور نیا تخمینہ 36 ارب ڈالرز سالانہ لگایا گیا مگر اب ایک مرتبہ پھر نظر ثانی کرتے ہوئے تخمینہ 38 ارب ڈالرز کر دیا گیا ہے۔

کچھ لوگوں کے خیال میں یہ رقوم بھیجنا سمندر پار پاکستانیوں کی مجبوری ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان میں اپنے اہل خانہ کی کفالت کرنی ہے، ہمدردیاں تو ان کی ایک خاص سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں، یہ تاثر بھی اب زائل ہوتا دکھائی دے رہا ہے، اسلام آباد میں منعقدہ تین روزہ کنونشن میں سمندر پار پاکستانیوں کی بڑی تعداد میں شرکت نے پاکستان کے سیاسی ماحول میں دلچسپ صورتحال پیدا کی ہے، یہ اوورسیز پاکستانیوں کی خدمات کے اعتراف میں پاکستان میں ہونے والا پہلا کنونشن تھا جس میں دنیا بھر سے بہترین خدمات سر انجام دینے والے اوور سیز پاکستانیوں نے شرکت کی۔

وزیر اعظم شہباز شریف ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر ، وفاقی کابینہ اراکین اور پارلیمنٹرینز نے اس کنونشن میں شرکت کر کے اوور سیز پاکستانیوں کی خدمات کو سراہا، وزیراعظم شہباز شریف نے سمندر پار پاکستانیوں کیلئے مراعات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں، ان کے بچوں کیلئے وفاقی جامعات میں پانچ اور میڈیکل کالجز میں 15 فیصد کوٹہ رکھا جائے گا، سرکاری ملازمتوں میں عمر کی حد میں چھوٹ اور اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کو سکلز سکھانے جیسے اقدامات بھی پیکیج کا حصہ ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف نے سمندر پار پاکستانیوں کو سروں کا تاج قرار دیا۔

اس کنونشن میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا پرجوش خطاب بڑی اہمیت اور دلچسپی کا حامل تھا، آرمی چیف کی اس کنونشن میں گفتگو اور جوش عام تقریبات سے مختلف دکھائی دے رہا تھا، تقریب میں آرمی چیف کو سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے قابل ذکر رسپانس ملا، خطاب کے دوران پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجتے رہے۔

آرمی چیف نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ صرف پاکستان کے سفیر نہیں بلکہ وہ روشنی ہیں جو پوری اقوام عالم کو روشن کرتی ہے، برین ڈرین کا بیانیہ بنانے والے جان لیں کہ یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے، جب تک اس ملک کے عوام افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، پاکستان کے سکیورٹی اداروں میں بغاوت کو ہوا دینے والا ملک کا دشمن ہے، انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی دنیا میں پاکستان کی نمائندگی فخر سے کریں۔

کنونشن کے شرکا سمندر پار پاکستانیوں کے کسی خاص طبقے سے نہیں تھے بلکہ ہر طبقہ فکر کے افراد پر مشتمل تھے، نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ مغربی ممالک سے ممتاز کاروباری پاکستانی شخصیات نے اس تقریب میں شرکت کر کے سب کو حیران کر دیا، اس تین روزہ تقریب کی بڑی حد تک کامیابی نے نہ صرف ملکی سیاسی ٹرینڈز کو تبدیل کیا ہے بلکہ نئی بحث کو بھی جنم دیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کو ترسیلاتِ زر پاکستان بھجوانے کے بائیکاٹ کی مہم میں دھچکے کے بعد یہ دوسرا دھچکا لگا ہے کیونکہ اس سے اس تاثر کی نفی ہوئی ہے کہ سمندر پار پاکستانی صرف پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہیں، خاص طور پر امریکا اور یورپ جیسے ممالک جو اوورسیز کے لحاظ سے تحریک انصاف کے گڑھ سمجھے جاتے تھے وہاں سے ڈاکٹرز اور کاروباری طبقے نے اس کنونش میں شرکت کر کے اپنے رجحانات سے متعلق تاثر کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

تحریک انصاف کی جانب سے اس کنونشن کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور سرکاری بندوبست قرار دینے کی کوشش کی کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی سیاست میں اوور سیز پاکستانیوں کی سپورٹ کا بڑا عمل دخل ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا سے متعلق بھی چند ماہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس پر صرف پاکستان تحریک انصاف کی اجارہ داری ہے مگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اب دوسری جانب کے بیانیے کو بھی فروغ ملتا دکھائی دیتا ہے، نئے رجحانات بتا رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنا طرز سیاست تبدیل نہ کیا تو اسے مزید کئی محاذوں پر سیاسی دھچکے لگ سکتے ہیں۔