28 مئی، یوم تکبیر، جب پاکستان نے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا

Published On 27 May,2025 06:48 pm

لاہور (رپورٹ: فرحان نذیر) یومِ تکبیر پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم اور قابلِ فخر دن ہے جو ہر سال 28 مئی کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن اس واقعے کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان نے 1998 میں کامیابی سے ایٹمی دھماکے کیے اور دنیا کی چھٹی اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔

یومِ تکبیر کا مطلب ہے "تکبیر کا دن"، یعنی وہ دن جب "اللہ اکبر" کی صدا کے ساتھ پاکستان نے دشمنوں کو واضح پیغام دیا کہ وہ اپنے دفاع میں خود کفیل ہے، بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر دباؤ تھا کہ وہ جواب نہ دے لیکن قوم کے اتحاد، قیادت کے عزم اور سائنسدانوں کی محنت سے یہ ممکن ہوا۔

پاکستان کے دفاع کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت بنے کیوں کہ بھارت کے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد خطے میں دفاعی توازن برقرار نہیں تھا، پاکستان اور بھارت کے الگ ہوتے ہی بھارت نے امریکہ اور اتحادیوں کی مدد سے اپنے ایٹمی پلانٹ پر کام شروع کر دیا تھا، پھر انڈیا نے ایک دھماکہ 1974 میں کیا، عالمی طاقتوں نے بھارت کو ایٹمی پروگرام روکنے کے لیے زور نہ دیا آخر کار انڈیا نے 11 اور 13 مئی 1998 کو یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کر دیئے۔

دھماکوں کے بعد انڈیا کی جانب سے پاکستان کو دھمکی آمیز بیانات دیئے جانے لگے، پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھارت کو جواب دیئے جانے کا مطالبہ ہوا، شدید عوامی دباؤ اور بھارت کے عزائم کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر متعدد ممالک پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے آگے بڑھے، اس کو روکنے کے لیے حربے کیے گئے، لالچ اور پابندیوں کے پیغام بھجوائے گئے۔

یہ ایک کڑا وقت تھا، اس سارے معاملے میں اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پر بہت دباؤ تھا لیکن جلد ہی حکومت نے دو ٹوک فیصلہ کر لیا اور دھماکوں کے لیے بلوچستان کے علاقے چاغی کی پہاڑی کو چنا گیا۔

28 مئی 1998 کی صبح پاکستان کی تمام عسکری تنصیبات کو ہائی الرٹ کر دیا گیا، دھماکے کے مقام سے دس کلومیٹر دور آبزرویشن پوسٹ پر دس ارکان پر مشتمل ٹیم پہنچ گئی جن میں اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے چار سائنس دانوں کے ساتھ پاک فوج کی ٹیم کے قائد جنرل ذوالفقار شامل تھے۔

تین بج کر 16 منٹ پر فائرنگ بٹن دبایا گیا جس کے بعد چھ مراحل میں دھماکوں کا خود کار عمل شروع ہوا، 28 مئی 1998 ء مسلمانوں کے لئے ایک تاریخ ساز دن تھا جب اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ایک ایسے ہتھیار کا تجربہ کیا جو دنیا کا مہلک ترین ہتھیار مانا جاتا ہے۔

قوموں کے عروج و زوال میں جہاں دوسرے عناصر کارفرما ہوتے ہیں وہاں ٹیکنالوجی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے، بہادری کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی ایسے ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے جو مستند، نایاب اور کارآمد ہو، پاکستان نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ اس کے ہدف پر پھینکنے کے سلسلے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔

شاہین III میزائل بھارت کے ہر حصہ کو نشانہ بنا سکتا ہے، ہمارا بابر III میزائل 700 کلومیٹر تک آبدوز سے زمین اور سمندر میں تارپیڈو کے طور پر کام کرتے ہوئے جہاز یا آبدوز کو تباہ کر سکتا ہے۔

اس وقت پاکستان کا دفاع اللہ کے فضل سے ناقابل تسخیر ہے، 28 مئی کا دن برصغیر اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے انتہائی مبارک دن ہے اور وہ پہاڑ جہاں یہ دھماکے ہوئے وہ پاکستان کی شان و شوکت اور عظمت کے گواہ ہیں اور اللہ کی ثنا اور تکبیر کا نعرہ بلند کر رہے ہیں

یہ کامیابی محض ایک سائنسی کارنامہ نہیں بلکہ قومی خودداری، سالمیت اور دفاعی خود مختاری کی علامت ہے، اس دن پاکستان نے دنیا کو دکھایا کہ وہ اپنے دشمنوں کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے دن رات محنت کر کے یہ کارنامہ سرانجام دیا، حکومتِ وقت، عوام اور افواجِ پاکستان نے مکمل حمایت فراہم کی، یومِ تکبیر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اگر قوم متحد ہو تو کوئی بھی ہدف ناممکن نہیں۔

آج کا دن ہمیں اپنے قومی ہیروز کو خراجِ تحسین پیش کرنے، ملکی دفاع کو مضبوط بنانے اور اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کے عزم کو دہرانے کا موقع فراہم کرتا ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اس دن کو صرف ایک تقریب کے طور پر نہ منائیں بلکہ قومی یکجہتی، سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور خود انحصاری کے جذبے کو اپنائیں۔

 ایٹمی دھماکوں کے دن کو یوم تکبیر کا نام دینے والی شخصیت

28 مئی 1998 کو انڈیا کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے اور اس دن کو یوم تکبیر کا نام دیا گیا، اس نام کے خالق کا نام چودھری یعقوب آرائیں ہے جن کا تعلق جلالپور بھٹیاں سے تھا، مرحوم نے 28 مئی کو یوم تکبیر کا دیا تھا۔

حکومت پاکستان نےایٹمی دھماکوں کے بعد ملک بھر سے اس دن کو یاد رکھنے کے حوالے سے نام مانگا گیا ملک بھر سے مختلف نام سامنے آئے جن میں جلالپور بھٹیاں کے رہائشی چودھری محمد یعقوب آرائیں نے ”یوم تکبیر” کا نام تجویز کیا۔

نام تجویز کرنے پر حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب کی جانب سے انہیں سند اعزاز اور نقدی سے نوازا گیا، چودھری محمد یعقوب آرائیں اپریل 2015 میں اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے۔

چودھری محمد یعقوب کی وفات کے باوجود یوم تکبیر کے حوالے سے تاقیامت ان کا نام یاد رکھا جائے گا اور یوم تکبیر کے حوالے ہر سال یہ دن منایا جائے گا۔

ایٹمی تجربات کیلئے چاغی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟

صوبہ بلوچستان کے شمال مغرب میں واقع چاغی رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے،اس ضلع کی سرحد دو ممالک افغانستان اور ایران سے ملتی ہے۔

تقریباً 200 کلومیٹر طویل پہاڑی سلسلہ ’راس کوہ‘ گویا ضلع چاغی کی جنوبی سرحد ہے، اس پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع 344 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے علاقے ’دوستان وڈھ‘ کے گاؤں چَھتر کے سامنے وہ پہاڑی واقع ہے جسے 28 مئی کے دھماکوں کے لیے چُنا گیا۔

راس کوہ کے دوسری جانب واقع صحرائے خاران میں وہ مقام واقع ہے جہاں 30 مئی کو چھٹا دھماکہ کیا گیا۔

ماہر طبیعات فیضان اللہ خان اپنی کتاب ’کہوٹہ سے چاغی تک‘ میں لکھتے ہیں کہ ضلع چاغی میں راس کوہ کے پہاڑ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ بنجر اور نسبتاً غیرآباد تھا، ایسے مضبوط چٹانی پہاڑ زیر زمین دھماکے کے لیے مناسب ترین ہوتے ہیں، کیونکہ یہ تابکاری کے اثرات پھیلنے نہیں دیتے، یہ علاقہ کسی بھی زمینی یا فضائی گزرگاہ سے الگ تھلگ تھا، سو یہ خفیہ رہ سکتا تھا۔

اس کے ارد گرد صرف چند سو افراد رہتے تھے جنہیں دھماکے سے پہلے آسانی سے منتقل کیا جا سکتا تھا، اسی طرح دوسرا مقام راس کوہ کے دوسری جانب خاران کے صحرا میں تھا جہاں آبادی بالکل نہیں تھی۔