28 مئی 1998: جب پاکستان ناقابل تسخیر ٹھہرا!

Published On 28 May,2025 11:03 am

لاہور: (محمد ارشد لئیق) پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976ء میں ڈاکٹر عبد القدیر کی وطن آمد کے بعد ہوئی، 1998ء میں پاکستان ایٹمی دھماکے کر کے مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت بن گیا۔

ہر قوم کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو اس کی خودمختاری، وقار اور عزمِ صمیم کی علامت بن جاتے ہیں، پاکستان کیلئے 28 مئی 1998ء کا دن، جسے ہم یومِ تکبیر کے طور پر مناتے ہیں انہی دنوں میں شمار ہوتا ہے، یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب پاکستان نے چاغی کے پہاڑوں میں 6 دھماکے کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان نہ صرف ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے بلکہ اپنے دفاع کیلئے ہر حد تک جا سکتا ہے۔

یہ دن نہ صرف پاکستان کی دفاعی تاریخ بلکہ جنوبی ایشیا کی سٹریٹجک سیاست میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، اس روز پاکستان نے چاغی کے پہاڑوں میں کامیاب ایٹمی تجربات کر کے جوہری صلاحیت کا عملی مظاہرہ کر کے اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا اور خطے میں طاقت کا توازن بھی بحال کیا۔

یومِ تکبیر دراصل ایک سائنسی، عسکری اور سیاسی بصیرت کا مظہر ہے جس نے پاکستان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں اقوامِ عالم اسے ایک ذمہ دار اور بالغ نظری پر مبنی جوہری ریاست کے طور پر تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئیں، آج کے دن ہم نہ صرف اس عظیم کارنامے کو یاد کرتے ہیں بلکہ ان تمام سائنسدانوں، فوجی افسران، سیاسی رہنماؤں اور عوام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس خواب کو حقیقت بنایا۔

28 مئی 1998ء کی دوپہر کو جب چاغی کے پہاڑوں میں زمین دہلی، تو صرف پہاڑ نہیں لرزے بلکہ عالمی طاقتوں کے ایوانوں میں بھی ارتعاش پیدا ہوا، پاکستان نے اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کا جو خواب برسوں پہلے دیکھا تھا، وہ اس دن حقیقت میں ڈھل گیا، یہ جوہری تجربات بلوچستان کے ضلع چاغی کے راس کوہ پہاڑیوں میں کئے گئے، ایٹمی دھماکوں کی کل تعداد چھ تھی، یہ 11 اور 13 مئی 1998ء کو بھارت کے جوہری تجربوں کا سٹریٹجک جواب تھا۔

ہندوستان کا ہمیشہ سے جارحانہ رویہ اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب بھارت میں واجپائی حکومت نے 11 مئی 1998ء کو پوکھران کے مقام پر زیر زمین تین ایٹم بم کے تجربے کئے، ایٹمی تجربات کے بعد اس نے پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں اور صرف دو دن کے وقفے کے بعد مزید دو دھماکے کر دیئے، بھارت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستان کی جانب سے پانچ کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکوں کی صورت میں جواب دیا جائے گا۔

یوں تو بھارت انگریز سے آزادی کے بعد سے ہی جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کے خواب دیکھتا چلا آ رہا ہے، جس کا ایک عملی مظاہرہ اس نے حال ہی میں 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب پاکستان کیخلاف جارحیت کر کے کیا اور اسے اس بار بھی ویسا ہی منہ توڑجواب دیا گیا جیسا 1998ء میں دیا گیا تھا، تعداد کے اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک 1974ء میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا، وہ خطے میں طاقت کے توازن کو خراب کرنا چاہتا تھا، ایسی صورتحال میں پاکستان کو بھی اپنے دفاع کیلئے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا تھا۔

پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کے بیش قیمت اور پیچیدہ آپشن کی طرف کیوں جانا پڑا، اس کو سمجھنے کیلئے تاریخ کو 70ء کی دہائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے، دراصل 1974ء میں بھارت اپنے پہلے ایٹمی تجربے کے ذریعے اس خطے کے غیرمستحکم سکیورٹی ماحول میں نیوکلیئر معاملات کو شامل کر چکا تھا، جسے مغرب کے کچھ لوگوں نے ’’مسکراتا بدھا‘‘ کا نام دیا تھا، یہ ’’نیوکلیئر عدم پھیلاؤ‘‘ کے معاہدے کے تحت قائم نظام کو پہنچنے والا حقیقتاً پہلا بڑا دھچکا تھا۔

دنیا نے بھارت کے دعوؤں میں چھپے اس فریب کو بھی جلد ہی دریافت کر لیا کہ نہرو کے دور میں اس کا جوہری پروگرام پُرامن استعمال کیلئے نہیں تھا اور یہ کہ 1964ء میں چین کے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد بھارت کی شاستری حکومت نے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شروع کر دیا تھا، مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کیلئے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔

بھارت ایٹمی قوت بننے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کر کے اس کو دولخت کر چکا تھا، تاہم بھارت کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطے میں طاقت کا توازن شدید طور پر بگڑ گیا، چنانچہ 1974ء کے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا عزم کیا، پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت 1976ء میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی وطن آمد کے بعد ہوئی۔

1977ء میں ضیاء الحق کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے جرمنی، فرانس اور کینیڈا سے جوہری ٹیکنالوجی خریدنے کیلئے اہم اقدام کئے، حساس ترین آلات خریدنا اور ان کو پاکستان منتقل کرنا اہم ترین مسئلہ تھا، پاکستان کو اس مقصد کیلئے یورپ، مشرق وسطیٰ، سنگاپور وغیرہ میں خصوصی انتظامات کرنا پڑے، جس کے تحت حساس آلات مختلف ملکوں سے خریدے جاتے اور انہیں مختلف ممالک کے راستے منتقل کیا جاتا، امریکا کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے راستے پر گامزن ہے تو امریکا نے فرانس، جرمنی اور کینیڈا پر پابندیاں عائد کر دیں کہ وہ پاکستان کو ایسی کوئی ٹیکنالوجی فراہم نہ کریں جو پاکستان ایٹمی پروگرام میں پیشرفت کا باعث بنیں۔

جرمنی نے امریکی پابندی کے باوجود پاکستان کو کچھ ٹیکنالوجی فراہم کی، اس کا ذکر پاکستان کے سابقہ سفارت کار جمشید مار نے بھی کیا ہے کہ پاکستان کو یورنیم افزودگی کا معیار پرکھنے والے آلے سمیت بہت سے حساس آلات فروخت کرنے والا ملک جرمنی تھا، ان حساس آلات کو خریدنے کے بعد مختلف راستوں سے پاکستان منتقل کیا گیا، پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے لائے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا، ایک چھوٹی سی غلطی بھی سارے پروگرام کیلئے خطرے کا باعث بن سکتی تھی۔

1974 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور انتہائی افزودہ یورینیم کے بطور انشقاق مواد کی فزیبلٹی پر زور دیا، PAEC کی طرف سے 1967ء میں گیسی سینٹری فیوج پر ابتدائی کام کیا گیا تھا لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نیدرلینڈز میں یورینکو گروپ سے حاصل کردہ مہارت سے یورینیم کی افزودگی کے کام کو آگے بڑھایا، اُن کی نگرانی میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (KRL) کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کی یورینیم افزودگی کی صلاحیتوں کیلئے ضروری مواد ٹیکنالوجی اور آلات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔

11 مارچ 1983ء کو ڈاکٹر منیر احمد خان کی سربراہی میں PAEC نے پہلی نیوکلیئر ڈیوائس کی ذیلی جانچ کی، جسے کولڈ ٹیسٹ بھی کہا جاتا ہے، اس کا کوڈ نام-1 Kirana تھا، 1983ء سے 1994 ء تک مزید 24 کولڈ ٹیسٹ کئے گئے۔

بالآخر 28 مئی 1998ء کا وہ دن بھی آ گیا جب پاکستان حقیقی طور پر جوہری ہتھیاروں کے تجربات کرنے والا تھا، پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شمال مغرب میں واقع صحرائے خاران کے اونچے اور سنگلاخ پہاڑ 28 مئی کی سہ پہر کو تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھے، یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب پاکستان نے طاقت اور غرور کے نشے میں مبتلا بھارت کے تکبر کو خاک میں ملا دیا اور دنیا بھر کی طاقتوں کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان اپنی سالمیت کی حفاظت کرنا بخوبی جانتا ہے، پوری دنیا ورطہ حیرت میں مبتلا تھی کہ یہ پاکستان نے کیا کر دکھایا؟ پاکستان کی اس کامیابی کی بھارت کو امید بھی نہ تھی۔

اُس روز پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے سہ پہر کو سوا تین بجے چاغی ٹیسٹ سائٹ پر پانچ زیر زمین ایٹمی تجربات کئے، اس عمل کے مشاہدے کیلئے پوسٹ ٹیسٹ سائٹ سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم کی گئی تھی جس میں ڈاکٹر مسعود احمد اور اصغر قادر کی سربراہی میں ’’میتھا میٹکس گروپ‘‘ اور ’’تھیوریٹیکل فزکس گروپ‘‘ کے ارکان کو جوہری ہتھیاروں کی کیلکلو لیشن کا حساب لگانے کا چارج دیا گیا تھا، اس طرح پاکستان مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں جوہری صلاحیت کی حامل ریاست کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ٹھہرا۔

پاکستان کی جوہری صلاحیت جنوبی ایشیائی خطے میں طاقت کا توازن قائم کرنے کیلئے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، جس نے یکطرفہ جارحیت کے اندیشوں کا ازالہ کیا، اس طرح یہ جوہری ہتھیار درحقیقت امن کے پیامبر ثابت ہوئے ہیں۔

جوہری ٹیسٹ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کیا کہا!
پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک موقع پر اس کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’28 مئی کو جو جوہری ہتھیار ٹیسٹ کیا گیا اس میں ایک Boosted Fission ڈیوائس تھی اور باقی چارsub-kiloton ایٹمی آلات تھے، اس کے بعد 30 مئی 1998ء کو پاکستان نے 12 کلوٹن کی پیداوار کے ساتھ ایک اور جوہری تجربہ کیا، محکمہ موسمیات کے مطابق 28 مئی کو پاکستان کے جوہری ٹیسٹوں سے ریکٹر سکیل پر زلزلے کے 5.0 سگنل پیدا ہوئے۔

تاریخ ساز دن کو ’’یوم تکبیر‘‘ کا نام جاوید پاشا نے دیا
ریڈیو پاکستان کے معروف ڈرامہ نگار جاوید پاشا وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اس تاریخ ساز دن کو ’’یوم تکبیر‘‘ کا نام دیا، یہ نام تجویز کرنے پر اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے انہیں 1999ء میں سندِ اعزاز سے نوازا۔

ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ دنیا کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں۔