مطالبہ پاکستان اور قائد اعظمؒ کی بصیرت

Published On 14 August,2025 11:24 am

لاہور: (ڈاکٹر صفدرمحمود) 14 اور 15 اگست کی نصف شب جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو یہ لیلتہ القدر کی مبارک رات تھی، جب پاکستانی قوم نے اپنا پہلا جشن آزادی منایا تو اس روز ستائیسویں رمضان اور جمعۃ الوداع کا دن تھا، گویا ساری نیک ساعتیں اس روز یکجا ہوگئی تھیں۔

آپ نے سورۃ القدر میں پڑھا ہوگا کہ لیلۃ القدر کے موقع پر فرشتے آسمانوں سے اتر آتے ہیں اور مطلع فجر تک سلام بھیجتے ہیں، اسی مبارک رات جب آسمان سے اللہ پاک کی بے انتہا اور بے شمار نعمتیں برس رہی تھیں تو رات کے بارہ بجے، قیام پاکستان کا اعلان ہوا تھا، بیشک قیام پاکستان اللہ پاک کی عطا تھی اور پاکستانی قوم کیلئے لاتعداد نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی۔

یہ بات یاد رکھئے کہ جب اللہ پاک کی جانب سے نعمت عطا ہوتی ہے تو اس کے ساتھ آزمائش، امتحان اور تقاضے بھی وابستہ ہوتے ہیں، اگر وہ تقاضے پورے نہ کئے جائیں تو پھر سزا کا عمل بھی شروع ہوجاتا ہے، قرآن مجید پر تدبر کیجئے، بنی اسرائیل اور دیگر کئی قوموں کو نایاب نعمتیں عطا ہوئیں، آسمانوں سے من و سلویٰ بھی اتارا جاتا رہا لیکن جب ان قوموں نے ان نعمتوں کے تقاضے پورے نہ کئے تو انہیں سزائیں بھی ملیں۔

پاکستان عطائے الہٰی ہے، اسے ایک اسلامی، فلاحی ریاست بنانا مقصود تھا، حکومتی نظام کی حد تک جمہوریت ہمیں ورثے میں ملی تھی کیونکہ جمہوری نظام بلکہ پارلیمانی جمہوری نظام برطانوی حکمرانوں نے ہندوستان میں متعارف کرایا تھا، عوام کی کسی حد تک سیاسی تربیت بھی ہو چکی تھی لیکن پاکستانی جمہوریت کی بنیاد اسلامی اصولوں پر جبکہ ہندوستانی جمہوریت کی بنیاد سیکولر اصولوں پر رکھی جانی تھی، یعنی پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری ریاست جبکہ ہندوستان کو سیکولر ریاست بننا تھا۔

14 اگست کے حوالے سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کا تصور کیا تھا؟ قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کس قسم کا تصور پاکستان قوم کے سامنے پیش کیا؟ ان کے ذہن میں پاکستان کے نظام کا نقشہ کیا تھا؟ انہوں نے کس تصور پاکستان کیلئے عوام سے ووٹ لے کر نہ صرف انگریزوں کو تقسیم پر مجبور کر دیا بلکہ مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت پر بھی مہر تصدیق ثبت کر دی تھی؟

1945-46ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی فقید المثال کامیابی کے بعد خود کانگرس کیلئے ’’تقسیم‘‘ کے علاوہ کوئی چارہ یا آپشن باقی نہ بچا تھا، اس پس منظر میں یہ حقیقت ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں رہنی چاہئے کہ اوّل تو قیام پاکستان ایک جمہوری و سیاسی عمل کا پھل یا منطقی انجام تھا، دوم یہ کہ مطالبہ پاکستان کے مقدر کا فیصلہ خود ہندوستان کے مسلمانوں نے 46-1945ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو 75 فیصد ووٹ دے کر کیا تھا، انگریزوں نے آخری لمحے تک کوشش کی کہ ہندوستان متحد رہے، انہوں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا اور وہ پورا ہندوستان ہی کانگرس کو لوٹا دینا چاہتے تھے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

فروری 1947ء میں برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے اعلان کیا تھا کہ برطانوی حکومت جون 1948ء تک برطانوی ہندوستان کو مکمل خود مختاری دے گی، لیکن قدرت کا فیصلہ تھا کہ پاکستان 14 اور 15 اگست کی نصف شب معرض وجود میں آئے، ایک اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ وہ تصور پاکستان کیا تھا جس کیلئے عوام نے ووٹ دیئے، قربانیاں دیں، صعوبتیں برداشت کیں اور جسے قائداعظمؒ نے مسلمانوں کے سامنے پیش کیا؟ وہ کیا خواب تھا جس کی تعبیر کیلئے عالمی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت وقوع پذیر ہوئی اور مسلمان گھر بار لٹا کر، بزرگوں کی قبروں کو چھوڑ کر اور انگنت جانوں کی قربانیاں دے کر دیوانہ وار پاکستان چلے آئے، اس تصور کو سمجھنے کیلئے ہمیں قائداعظم ؒکی شخصیت اور ان کی تقاریر، ان کے پیغامات اور وعدوں پر نظر ڈالنی ہوگی۔

قائداعظمؒ کی شخصیت اور ان کے مزاج کو ذہن میں رکھ کر ان کی تقاریر پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت، اسلام کی بقا اور عظمت، اپنے ضمیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی جیسے احساسات و تصورات ان کے ذہن پر نقش تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریریں ان الفاظ اور ترکیبات کے ذکرسے بھری پڑی ہیں۔

بدقسمتی سے قائداعظمؒ کی شخصیت کے اس پہلو کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے، اس لئے میں قائد اعظمؒ کی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ 1939ء میں کی گئی تقریرکے چند فقرے نمونے کے طور پر پیش کررہا ہوں، انہیں پڑھیے اور ان الفاظ کے باطن میں جھانکیں تو آپ کو اصل جناحؒ کا سراغ ملے گا، وہ جناحؒ جو بظاہر انگریزی بولتا، مغربی لباس پہنتا اور مغربی طور طریقوں پر عمل کرتا تھا لیکن باطنی طور پرکیا تھا؟

قائداعظم کے الفاظ تھے: ’’مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت قریب سے دیکھا ہے، دولت ، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے، اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں، میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی، میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں، میں چاہتا ہوں کہ مرتے وقت میرا اپنا دل، ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے اسلام کا حق ادا کر دیا، جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے، میرا خدا یہ کہے کہ بیشک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں عَلم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے‘‘۔

یوم حساب، خدا کے حضور سرخروئی کا خیال، مسلمانوں اور اسلام کی سربلندی کا علم بلند کئے ہوئے مرنے کی آرزو اور رضائے الہٰی کی تمنا صرف وہ شخص کر سکتا ہے جو سچا مسلمان ہو اور جس کا باطن خوف خدا کے نور سے منور ہو، غور کیجئے کہ جب قائداعظم نے یہ تقریر کی اس وقت ان کی عمر تقریباً 53 سال تھی اور ان کی شہرت اوجِ ثریا پر تھی، قائداعظم کو زندگی بھر اقلیتوں کے مسئلے سے واسطہ رہا اور وہ اس سے نمٹنے کی کوشش کرتے رہے۔

متحدہ ہندوستان میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت تھے اور اس اقلیت کے سب بڑے رہنما محمد علی جناحؒ تھے، چنانچہ متحدہ ہندوستان کا خواب ٹوٹنے کے بعد جس کا نقطہ عروج 1928ء کی نہرو رپورٹ کو قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ قائداعظمؒ نے اسے ’’پارٹنگ آف دی ویز‘‘ یعنی راستوں کی علیحدگی قرار دیا تھا، قائداعظم پہلے پہل مسلمان اقلیت کے حقوق اور بعد ازاں مسلمان قوم کے حقوق کیلئے اس وقت تک مسلسل لڑتے رہے، جدو جہد کرتے رہے جب تک قیام پاکستان کے امکانات واضح نہیں ہوگئے۔

مسلمان اقلیت سے مسلمان قوم کے سفر میں 1940ء کی قرارداد لاہور یا قرار داد پاکستان ایک اہم ترین سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کے بعد قائداعظمؒ کا مؤقف یہ رہا کہ مسلمان ایک اقلیت نہیں بلکہ ہر تعریف، معیار اور تصور سے ایک قوم ہیں، ظاہر ہے کہ اس قومیت کی اہم ترین بنیاد مذہب تھی، اسی طرح جب قیام پاکستان کا مرحلہ قریب آیا تو قائد اعظم ؒکیلئے سب سے اہم مسئلہ اقلیتوں کا تھا، کیونکہ پاکستان میں بھی کئی مذہبی اقلیتیں آباد تھیں اور ادھر ہندوستان میں بھی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں ہی کی تھی، جس کے تحفظ کیلئے قائداعظمؒ پریشان رہتے تھے۔

قیام پاکستان سے چند ماہ قبل اور چند ماہ بعد تک ان سے بارہا اقلیتوں کے مستقبل کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے رہے، جس کی وہ بار بار وضاحت کرتے رہے، اس دور میں قائداعظمؒ نے جو تقاریر کیں یا بیانات دیئے ان کا صحیح مفہوم سمجھنے کیلئے ان کا مطالعہ اس مسئلے کے تناظر میں کرنا چاہئے۔

اس ضمن میں قائد اعظم کے ذہن اور فکر کو سمجھنے کیلئے ان کی اس پریس کانفرنس کا حوالہ دینا ضروری ہے جو انہوں نے پاکستان کا گورنر جنرل نامزد ہونے کے بعد 14 جولائی 1947 ء کو نئی دہلی میں کی، اقلیتوں کے ضمن میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’’میں اب تک بار بار جو کچھ کہتا رہا ہوں اس پر قائم ہوں، ہر اقلیت کو تحفظ دیا جائے گا، ان کی مذہبی رسومات میں دخل نہیں دیا جائے گا اور ان کے مذہب، اعتقاد، جان و مال اور کلچر کی پوری حفاظت کی جائے گی، وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے برابر کے شہری ہوں گے‘‘۔

قائد اعظم نے مزید کہا ’’آپ مجھ سے ایک فضول سوال پوچھ رہے ہیں، گویا میں اب تک جو کچھ کہتا رہا ہوں وہ رائیگاں گیا ہے، آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا، ہم نے جمہوریت 1300 سال قبل سیکھ لی تھی‘‘۔

اس بحث کی ایک اہم کڑی قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر ہے جو انہوں نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا صدر منتخب ہونے پر کی، قائد اعظمؒ نے کہا ’’ہم آپ کی مدد سے اس اسمبلی کو مثالی بنائیں گے، اس اسمبلی نے بیک وقت دستور سازی اور قانون سازی کے فرائض سرانجام دینے ہیں جس کے سبب ہم پر نہایت اہم ذمہ داری ڈال دی گئی ہے، حکومت کا پہلا فرض امن عامہ قائم کرنا ہے تاکہ شہریوں کی جائیداد اور مذہبی اعتقادات کی حفاظت کی جا سکے۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے، اس اسمبلی کو اس زہر کے خاتمے کیلئے مؤثر اقدامات کرنے ہیں، ایک اور لعنت بلیک مارکیٹنگ یعنی چور بازاری ہے جس کا تدراک آپ کو کرنا ہے، اسی طرح ہمیں اقربا پروری اور ظلم و زیادتی کو بھی کچلنا ہے، مجھے علم ہے کہ کچھ لوگوں نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا، میرے نزدیک اس مسئلے کا اور کوئی حل نہیں تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا کرنا ہے؟ اگر ہم پاکستان کو خوشحال اور عظیم ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ہمہ وقت عوام کی خوشحالی اور بہتری پر توجہ دینا ہوگی، اگر آپ ماضی کی تلخیوں کو دفن کر کے، رنگ و نسل اور عقیدے کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر، تعاون اور برابری کی فضا میں کام کریں گے تو آپ کی ترقی کی کوئی انتہا نہیں ہوگی‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ قائداعظمؒ پاکستان کو ایک ماڈرن اسلامی جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے اور ان کے نزدیک اسلامی اور جمہوری اصولوں میں کوئی تضاد نہیں تھا، قائداعظمؒ کی تقاریر کا مطالعہ کریں تو یہ راز کھلتا ہے کہ قائداعظمؒ نے اپنی تقریروں میں کبھی لفظ سیکولرازم استعمال نہیں کیا جبکہ اسلام ان کی تقریروں اور تحریروں کا محور نظر آتا ہے۔

قائداعظمؒ مسلسل یہ کہتے رہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، سیرت النبیﷺ ہمارے لئے اعلیٰ نمونہ ہے، جمہوریت، مساوات اور انصاف ہم نے اسلام سے سیکھا ہے اور اسلام نے جمہوریت کی بنیاد 1300 برس قبل رکھ دی تھی، اس لئے ہمارے لئے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے اور یہ کہ ہمارے نبی کریمﷺ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا تھا ہم اس پر عمل کریں گے۔

ہم قائداعظمؒ کے تصور پاکستان سے بہت دور ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ قوم کے ذہن میں قائداعظمؒ کے وژن کو تازہ رکھنا ضروری ہے تاکہ ہمیں یہ احساس رہے کہ ہماری منزل کیا ہے اور ہمیں اسے بہر حال ایک دن حاصل کرنا ہے، منزل دور سہی، منزل کا شعور اور احساس تو زندہ ہے۔

ڈاکٹر صفدر محمود ممتاز محقق اور دانشور تھے، پاکستانیات کے حوالے سے وہ ایک مستند شناخت رکھتے تھے، متعدد کتب لکھیں، وفاقی سیکرٹری تعلیم بھی رہے۔