لاہور: (دنیا نیوز، ویب ڈیسک) بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے کے بعد دریائے ستلج کے کئی مقامات پر حفاظتی بند ٹوٹ گئے جس سے کئی بستیاں زیر آب آ گئی ہیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔
این ڈی ایم اے نے آئندہ 48 گھنٹوں کے لیے دریائے راوی پر درمیانے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کر دیا ہے، دریائے راوی اور اس کے ملحقہ ندی نالوں میں شدید بارشوں کے باعث تھین ڈیم 1717 فٹ کے ساتھ 86 فیصد تک بھر چکا ہے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق ڈیم سے اخراج کی صورت میں سیالکوٹ، نارووال، قصور اور گردونواح کے نشیبی علاقے متاثر ہو سکتے ہیں۔
پاکپتن کی بستی چکرآلوکا اور کنڈ نین سنگھ کے حفاظتی بند بھی ٹوٹ گئے، سیلابی پانی قریبی آبادیوں میں داخل ہو گیا، علاقہ مکین اپنی مدد آپ کے تحت بند باندھنے میں مصروف ہیں۔
ستلج سے متاثرہ اضلاع میں قصور، اوکاڑہ، پاکپتن، بہاولنگر اور وہاڑی شامل ہیں، ریسکیو ٹیموں کے مطابق دیہاتیوں اور ان کے مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے۔
پنجاب کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق دریائے ستلج نے سرحد کے قریب علاقوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے، انسانی آبادی اور مکانات بھی متاثر ہوئے ہیں، لوگ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
بہاولنگر ضلع کی تحصیل منچن آباد کے علاقوں وزیرا گدوکا، میکلوڈ گنج میں سیلابی ریلے نے بڑے پیمانے پر کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، خاص طور پر دھان، تل اور چارہ جات کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔
بابا فرید پل اور ملحقہ علاقوں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے، موضع اعظم چھینہ، موضع بھونڈی سمیت متعدد دیہات میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے، عارضی طور پر بنانے گئے چھوٹے بڑے حفاظتی بند ٹوٹ گئے، متاثرہ علاقوں کا منچن آباد شہر سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
ظفر وال میں لہڑی کے مقام سے نالہ ڈیک کا بند ٹوٹنے سے 500 فٹ کا شگاف پڑ گیا، بند ٹوٹنے سے سڑک کے کٹاؤ کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے، محکمہ آبپاشی کے مطابق درجنوں دیہات کے لپیٹ میں آنے کا خدشہ ہے۔
ستلج کا سیلابی پانی احمد پور شرقیہ کے مزید کئی دیہات میں داخل ہو گیا، شمس آباد، بیلی ، بقا پور، بستی بھٹہ، بستی جھلن، بستی گھلو سیلابی پانی کی لپیٹ میں آ گئے، گھروں، سرکاری سکول میں پانی داخل ہو گیا، زرعی اراضی زیر آب آ گئیں۔
انتظامیہ کے مطابق فلڈ ریلیف کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں، علاقہ مکین مال مویشی سمیت محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔
ریسکیو حکام کے مطابق ریسکیو ٹیمیں لوگوں کو کشتیوں کے ذریعے نکال رہی ہیں، گزشتہ 24 گھنٹوں میں 19 ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
پی ڈی ایم اے کی جانب سے دریا کے کنارے رہنے والے لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ فوراً محفوظ علاقوں میں منتقل ہو جائیں، تاہم کچھ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جانے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں ہے۔
ڈیزاسٹر اتھارٹی کے مطابق دریائے چناب میں آئندہ 24 گھنٹوں میں درمیانے سے اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے کیونکہ دریائے توی سے پانی کا بڑا ریلا دریائے چناب میں داخل ہونے کا امکان ہے۔
دریائے توی سے آنے والا سیلابی ریلا گجرات، منڈی بہاؤ الدین، چنیوٹ اور جھنگ سے ملحقہ علاقوں کو متاثر کر سکتا ہے، ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کی آمد 1 لاکھ 27 ہزار اور اخراج 1 لاکھ 9 ہزار کیوسک ہے۔
چناب میں خانکی پر پانی کی آمد 1 لاکھ 28 ہزار اور اخراج 1 لاکھ 21 ہزار ہے، ڈیرہ غازی خان کی رودکوہیوں میں بھی فلیش فلڈنگ کا خدشہ ہے۔
دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے، گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کا بہاؤ 1 لاکھ 33ہزار کیوسک ہے، ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے، سلیمانکی کے مقام پر پانی کی آمد 94 ہزار کیوسک اور اخراج 87 ہزار ہزار کیوسک ہے۔
دریائے سندھ میں کالاباغ اور چشمہ کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے، دریائے راوی میں جسڑ پر 39 ہزار شاہدرہ 18 ہزار بلوکی 41 ہزار اور ہیڈ سدھنائی میں پانی کا بہاؤ 33 ہزار کیوسک ہے۔
نالہ ایک، بئیں اور بسنتر میں نچلے درجے کی سیلابی صورتحال ہے۔