لاہور: (پروفیسر شریف المجاہد) کسی نے سچ کہا ہے کہ پاکستان انتشار و افراتفری کے عالم اور ابتر حالات میں قائم ہوا تھا، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی شاید ہی کسی اور قوم نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز اس قدر محدود وسائل کے ساتھ اور ایسے سنگین حالات میں کیا ہو۔
اس نوزائیدہ قوم کو ورثے میں نہ کوئی مرکزی حکومت ملی تھی نہ اس کا کوئی دارالحکومت تھا، نہ اس کا کوئی انتظامی ادارہ تھا، نہ کوئی منظم دفاعی فوج، اس کے سماجی اور انتظامی وسائل بھی بے حد قلیل تھے، ضروری سازوسامان مفقود تھا، تقسیم ہند کے خلاف پنجاب میں آگ اور خون، ہلاکت اور بربادی کا جو ہولناک کھیل سکھ مورچے کی خون آشامی نے کھیلا تھا اس کی وجہ سے پنجاب کا وسیع علاقہ ویران کھنڈر بن چکا تھا، مواصلاتی نظام درہم برہم ہو چکا تھا۔
علاوہ ازیں ہندو و سکھ تاجروں اور انتظامی عملے کی مکمل نقل مکانی نے معیشت کو تقریباً اجاڑ کر رکھ دیا تھا، خزانہ خالی تھا کیونکہ ہندوستان نے پاکستان کو زر مبادلہ کے بقایا جات کا وہ حصہ دینے سے انکار کر دیا تھا جو اس کا حق تھا، ان سب سے بڑھ کر اس نوزائیدہ قوم پر اُن 8 لاکھ مہاجروں کی کفالت کا بوجھ بھی آن پڑا تھا جو اس طویل اور انتہائی گرم موسم میں وحشت بربریت اور عدم تحفظ کی بنا پر شمالی ہند کے میدانی علاقوں سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔
اگر ان تمام مسائل نے پاکستان کی انتظامی اور اقتصادی کمزوریوں کو ظاہر کر دیا تھا تو نومبر 1947ء میں ریاست جونا گڑھ جس نے بنیادی طور پر پاکستان میں شامل ہونے کے حق میں فیصلہ دیا تھا، پر بھارت کی فوج کشی اور اکتوبر 1947 ء سے دسمبر 1948ء کے درمیان انضمام کشمیر کے مسئلہ پر ہونے والی جنگ سے اس نوزائیدہ مملکت کی وہ فوجی کمزوریاں بھی عیاں ہوگئی تھیں جو اس کو ورثے میں ملی تھیں۔
ان تمام حالات میں بھی پاکستان کا زندہ سلامت رہنا ایک معجزے سے کم نہ تھا اور یہ معجزہ صرف ایک فرد واحد کے دست کرشمہ ساز کا نتیجہ تھا اور وہ شخص تھا قائداعظم محمد علی جناح۔ تاریخ کے اس انتہائی نازک مرحلہ پر پاکستان کو ان جیسے کرشمہ ساز لیڈر کی ہی ضرورت تھی اور اس شخص نے یہ ضرورت نہایت حسن و خوبی سے پوری کی، امر واقعہ یہی ہے کہ صرف قائداعظمؒ ہی یہ معجز نما کام کر سکتے تھے کیونکہ بقول لندن ٹائمز ’’وہ ان لوگوں کے لئے، اس قوم کے لئے جو ان کی رہنمائی میں یہاں تک آئی تھی، قائداعظمؒ سے بھی بڑھ کر سر براہ مملکت سے بھی زیادہ سر بلند اور اس اسلامی مملکت کیلئے، جس کی بنیاد خود انہوں نے رکھی تھی، معمار سے بھی کچھ زیادہ ہی حیثیت رکھتے تھے۔‘‘
تمام حالات و واقعات کا دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہوگا کہ یہ نوزائیدہ قوم اپنی ہنگامہ خیز پیدائش کے بعد ہی، پیش آنے والے ایسے تباہ کن اور ہولناک بحران میں بھی محض اس لئے زندہ سلامت رہی کہ اس دور میں قائداعظمؒ امور مملکت کے نگران تھے، پاکستان کے عوام کو ان پر جو بے پناہ اعتماد تھا، لوگوں کے دلوں میں ان کے لئے جو زبردست عقیدت و محبت تھی، قائداعظمؒ نے اُس کو بروئے کار لا کر اس قوم کو در پیش مشکلات اور مصائب سے نمٹنے کے لئے حوصلہ عطا کیا، اسے ان تباہیوں اور بربادیوں اور ہولناکیوں کا نئی توانائیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا عزم عطا کیا۔
آزادی نے ان کے سینوں میں حب الوطنی کے جن جذبات کو بھڑکایا تھا ان کی حدت و حرارت اور توانائی کا رخ تعمیری سرگرمیوں کی سمت موڑ دیا، بلاشبہ یہ وہ دور تھا جب قائداعظمؒ بہت تھک چکے تھے، ان کے قویٰ مضمحل ہو چکے تھے، ان کی صحت جواب دے گئی تھی اور اب وہ ہڈیوں کا پنجرہ ہو کر رہ گئے تھے، واقعتاً ان کا وجود ایسا ہو کر رہ گیا تھا جیسا کہ ماضی کا چلتا پھرتا سایہ۔
اس علالت، اس کمزوری اور اس شدید تھکن کے باوجود انہوں نے اس نئے ملک اور نئی مملکت کی زندگی کے پہلے انتہائی اہم اور نازک سال میں ذمہ داریوں کا بیشتر بھاری بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھا، انہوں نے نئی مملکت کی پالیسیاں وضع کیں، قوم کو در پیش مسائل کی واضح نشاندہی کی اور انہیں حل کرنے کیلئے انتھک کام کیا، انہوں نے آئین ساز اسمبلی، سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کو نہ صرف ان کے فرائض سے آگاہ کیا بلکہ انہیں یہ بھی بتایا کہ قوم نے ان سے کیا توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔
اس کے باوجود کہ شمالی ہندوستان میں ہونے والے فسادات خاص اشتغال انگیز تھے قائداعظمؒ نے بہر قیمت نظم و نسق برقرار رکھنے اور امن و امان مستحکم کرنے کیلئے مؤثر طریقے اختیار کئے، اکتوبر 1947ء میں وہ کچھ عرصے کے لئے لاہور منتقل ہوگئے تھے تاکہ وہاں مہاجرین کے آنے والے مسلسل اور زبردست سیلاب سے پیدا ہونے والی صورت حال کا موقع پر قریب سے جائزہ لے سکیں، ان لٹے پٹے بے سہارا افراد کی رہائش اور خوراک کا بندوبست کرنے کے لئے منصوبہ بندی کر سکیں، ان کی آباد کاری کے لئے، ان کونئی قوم کا جز ولا ینفک بنانے کے لئے حکمت عملی تیار کر سکیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان شکستہ حال بے گھر اور بے در لوگوں میں نئے وطن سے وابستہ والہانہ جذبہ اور احساس زیادہ شدید کر سکیں۔
یہ وہ دور تھا جب براعظم ہندوستان کے طول و عرض میں جذبات انتہائی مشتعل تھے، لیکن انہوں نے کبھی ہوش مندی اور توازن کو ہاتھ سے نہ جانے دیا، تمام اشتعال انگیزیوں کے باوجود انہوں نے ہمیشہ سنجیدگی، بردباری، متانت اور ثابت قدمی سے کام لیا، ان اشتعال انگیزیوں کے پس منظر میں انہوں نے اہلیانِ لاہور کو انتقامی کارروائی سے باز رکھا، انہیں صبر و ضبط کی تلقین کی اور اقلیتوں کی حفاظت کرنے کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے مہاجرین کی آباد کاری کی طرف پوری توجہ اور انہماک سے کام کرنے کی طرف متوجہ کیا۔
انہوں نے اقلیتوں کو واضح اور قطعی انداز میں تحفظ کی ضمانت دی، ان میں اعتماد اور تحفظ کا احساس پیدا کیا، ان کی دلجوئی کی، انہیں دلاسہ دیا، ان کے مجروح جذبات و احساسات کو مندمل کرنے کے لئے مسیحائی سے کام لیا، ساتھ ہی قائداعظمؒ نے مختلف صوبوں کا دورہ کیا، ان کے مسائل پر توجہ دی، ان صوبوں کے عوام کو ایک نئی امید سے ہمکنار کیا، پاکستان سے وابستگی کے جذبات کو تیز تر کیا اور انہیں نئی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔
انہوں نے صوبہ سرحد میں برطانیہ کی فارورڈ پالیسی کو ختم کر دیا اور وزیرستان ایجنسی سے فوجیں ہٹا کر پشتونوں کو یہ احساس دلایا کہ وہ بھی پاکستان کے جسدِ سیاست کا لازمی حصہ ہیں، انہوں نے ریاستوں اور سرحدی علاقوں کی ایک نئی وزارت قائم کی اور بلوچستان میں ایک نئے دور کا آغاز کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی، انہوں نے کراچی کی حیثیت کے متنازع مسئلہ کو حل کیا، ریاستوں کے پاکستان میں انضمام کو یقینی بنایا، بالخصوص قلات کی ریاست کے انضمام کو یقینی بنایا جو اُس وقت کے حالات میں بہت پیچیدہ مسئلہ دکھائی دیتا تھا۔
علاوہ ازیں انہوں نے ماؤنٹ بیٹن سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے کٹھن مذاکرات بھی جاری رکھے اور برطانوی حکومت کے دفترِ دولتِ مشترکہ سے مسلسل مراسلت بھی کرتے رہے، ان کی تمام تر کوشش یہی تھی کہ مشرقی پنجاب میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لئے دولت مشترکہ کے دفتر کو مجبور کیا جائے اور دونوں مملکتوں میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں تاکہ براعظم ہندوستان میں امن واستحکام پیدا ہو سکے۔
انہوں نے مختلف صوبوں کے گورنروں سے مراسلت کی، وزراء اور سیاستدانوں سے مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا، مختلف صوبوں کی صورت حال سے گہرے طور پر آگاہ رہے اور جہاں کہیں ضروری سمجھا متعلقہ افراد کو مشورہ بھی دیا کہ اپنے منصب کی تمام تفصیلات اور ذمہ داریوں پر توجہ دیں، کابینہ کے اجلاسوں کا تو خیر ذکر ہی کیا، انہوں نے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے قائداعظمؒ ریلیف فنڈ کمیٹی کے اجلاسوں کی گھنٹوں صدارت بھی کی، اس کے باوجود کہ مہلک بیماری ان کی تمام تر توانائیوں کو چاٹ چکی تھی۔
وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے کے لئے ایک تکلیف دہ سفر کر کے کوئٹہ سے کراچی پہنچے کیونکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان کی مالیاتی آزادی کا نشان تھا، اور ان سب کے علاوہ اُس دور کے گوناگوں اور پیچیدہ مسائل سے نمٹنے اور انتظامیہ کا ایک مؤثر نظام اور ادارہ قائم کرنے، مسلح افواج کی تنظیم نو کرنے اور ایک ترقی پسند اور فلاحی مملکت کی ٹھوس بنیادیں ڈالنے کے لئے وہ ان فعال افراد پر مشتمل جماعت کی رہنمائی کرتے رہے، انہیں نئی راہیں دکھاتے اور حوصلہ دلاتے رہے جو انہوں نے اپنے گرد جمع کی تھی۔
قائداعظمؒ نے اپنے مشن کی تکمیل پر کلی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 14 اگست 1948ء کو قوم کے نام آخری پیغام میں کہا تھا ’’آپ کی مملکت کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں، اب یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کی تعمیر کریں اور جس قدر جلد ممکن ہو سکے اس کی تعمیر کریں۔‘‘
قیام پاکستان کے ساتھ ہی قائداعظمؒ نے اپنے شانوں پر جو ذمہ داریاں لی تھیں ان کی تکمیل کرتے ہوئے وہ بالآخر موت کی گہری نیند سوگئے لیکن اس مختصر عرصے میں بقائے پاکستان کیلئے جتنا کام انہوں نے کیا کسی اور نے نہیں کیا، قائداعظمؒ کا انتقال 11 ستمبر 1948ء کو ہوا، آپ کے بارے میں سابق وزیر ہند پیتھک لارنس نے کتنی سچی بات کہی ہے ’’گاندھی ایک قاتل کے ہاتھوں مارا گیا، لیکن جناحؒ نے پاکستان سے گہری وابستگی اور لگاؤ کی راہ میں جان دی۔‘‘
قائداعظمؒ کے ماہ و سال !
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کو ماہ و سال کے آئینے میں دیکھیں تو یہ ایک ایسی داستان ہے جو عزم، قربانی اور قیادت کی اعلیٰ مثال سے عبارت ہے، انہوں نے مسلمانانِ ہند کو ایک قوم بنایا اور پھر اپنی بے مثال جدوجہد سے پاکستان کو حقیقت کا روپ دیا، قائداعظمؒ کی زندگی کے ہر مرحلے میں عزم، محنت اور استقلال جھلکتا ہے، آپ کی زندگی کے اہم واقعات تاریخ وار درج کئے ہیں تاکہ عظیم قائد کے سفرِ حیات کا نقشہ واضح ہو سکے۔
25 دسمبر 1876ء: محمد علی جناحؒ کراچی میں پیدا ہوئے، والد کا نام جناحؒ پونجا اور والدہ کا نام مٹھی بائی تھا، 1887ء: گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کی اور سندھ مدرستہ الاسلام کراچی میں داخل ہوئے، بعد ازاں کرسچن مشن سکول سے بھی تعلیم حاصل کی، 1892ء: صرف 16 برس کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان روانہ ہوئے، لندن کے لنکنز اِن (Lincoln s Inn) میں داخلہ لیا اور قانون کی تعلیم شروع کی، 1896ء میں وطن واپس آئے اور بمبئی میں وکالت کا آغاز کیا، بہت جلد اپنی قابلیت اور محنت سے نامور وکیل بن گئے۔
1906ء: کانگریس میں شمولیت اختیار کی، 1907ء: بمبئی قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور اپنی خطابت سے نمایاں پہچان بنائی، 1913ء: آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور جلد ہی لیگ کے فعال رہنماؤں میں شمار ہونے لگے، 1916ء:لکھنو پیکٹ میں اہم کردار ادا کیا، اس وقت انہیں ’’ہندو مسلم اتحاد کا سفیر‘‘ کہا گیا، 1919ء: رولٹ ایکٹ اور جلیانوالہ باغ کے سانحے کے بعد انہوں نے کانگریس سے اختلافات کیا، 1920ء: گاندھی کی عدم تعاون تحریک پر شدید اختلاف کیا اور کانگریس سے علیحدگی اختیار کر لی۔
1930ء:علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد نے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا، اس کے بعد محمد علی جناحؒ نے مسلم لیگ کو منظم کرنے میں بھرپور جدوجہد کی، 1934ء: مستقل طور پر برطانیہ سے واپس آ گئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی، 1937ء:انتخابات میں مسلم لیگ کی محدود کامیابی کے باوجود قائداعظمؒ نے مسلمانوں کو متحرک کیا اور انہیں ایک علیحدہ سیاسی قوت بنایا۔
23 مارچ 1940ء:لاہور کے منٹو پارک(اقبال پارک) میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی، یہ قائداعظمؒ کی قیادت کا نقطہ عروج تھا، مسلم لیگ نے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا، 46-1945ء: انتخابات میں مسلم لیگ نے شاندار کامیابی حاصل کی اور برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کے طور پر ابھری، 3 جون 1947ء: تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا گیا جس کے تحت پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہوئی، 14 اگست 1947ء: پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور قائداعظم محمد علی جناحؒ ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے، اسی دن کراچی میں اسمبلی سے تاریخی خطاب کیا اور ریاستی اصولوں کی وضاحت کی۔
11 ستمبر 1948ء: قائداعظمؒ طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پا گئے، یوں ایک عظیم رہنما اپنی قوم کو آزادی دلا کر تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔
پروفیسر شریف المجاہد پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم، مؤرخ اور تحریک پاکستان پر متعدد کتابوں کے مصنف تھے، وہ قائداعظم اکیڈمی کے بانی ڈائریکٹر بھی تھے۔