پنجاب کارڈ!

Published On 09 October,2025 10:18 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے سندھ حکومت پر تنقید کا سلسلہ رک نہیں پایا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بڑے اس معاملے میں بیچ بچاؤ کرانے کے لئے پس پردہ کوششیں کر رہے ہیں مگر تاحال کھل کر سامنے نہیں آئے، مریم نواز کا پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت پر غصہ اترنے کا نام نہیں لے رہا۔

اس سیاسی جنگ میں( ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکمت عملی بھی مختلف ہے، پیپلز پارٹی اور اس کے قریبی حلقوں کی جانب سے تاثر دیا جا رہا ہے کہ مریم نواز کی جانب سے اٹھایا گیا یہ جارحانہ قدم پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں بلکہ اُن کے چچا، وزیر اعظم پاکستان کے خلاف ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کو ناراض کرنے کا مطلب (ن) لیگ کی وفاقی حکومت کیلئے مشکلات کھڑی کرنا ہے، مگر کیا واقعی ایسا ہے؟

صدر آصف علی زرداری نے بیرون ملک دورے سے واپس آتے ہی سب سے پہلے وزیر داخلہ محسن نقوی کو کراچی طلب کیا اور صورتحال پر جانکاری حاصل کرنے کے بعد وفاقی حکومت کے لئے پیغام بھجوایا، صدر آصف علی زرداری نے مریم نواز کی جانب سے سندھ حکومت سے متعلق بیان بازی پر تشویش کا اظہار کیا اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو جوابی بیانات کے معاملے میں محتاط رہنے کی ہدایت کی۔

آئندہ چند گھنٹوں میں وزیر داخلہ محسن نقوی صدر کا پیغام لے کر وزیراعظم سے ملیں گے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات سے آگاہ کریں گے، صدر مملکت نے وزیر داخلہ کو کہا کہ وہ وفاقی سطح پر ہم آہنگی بڑھانے اور سیاسی کشیدگی کم کرنے کیلئے فعال کردار ادا کریں، دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ان ڈائریکٹ رابطے بحال ہو چکے ہیں، محسن نقوی دونوں جماعتوں کے درمیان پل کا کر دار ادا کر رہے ہیں۔

وزیراعظم شہباز خود بھی کشیدگی میں کمی کے لئے متحرک ہیں، اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ایک دو روز میں پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ سے ملیں گے، مگر خود مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی اس معاملے کو چیلنج سمجھتی ہے کہ مریم نواز کو روکنا یا ان کی ایما پر کوئی کٹمنٹ کرنا آسان نہیں، وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی دونوں کے لئے اس معاملے پر مریم نواز کو قائل کرنا اتنا آسان ہوتا تو یہ معاملہ ابھی تک حل ہو چکا ہوتا۔

پیپلز پارٹی نے مستقبل میں کبھی اقتدار میں آنا ہے تو پنجاب میں سیاسی اثر ورسوخ کے بغیر یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا، یہی وجہ ہے کہ پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنی واپسی چاہتی ہے بلکہ موجودہ وفاقی حکومت کو سپورٹ کے بدلے اپنے حلقوں میں اختیارات بھی اس کا دیرینہ مطالبہ ہے، مگرپنجاب میں پیپلز پارٹی تو دور کی بات خود (ن) لیگ کے اپنی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو اپنے حلقوں میں اختیارات کے مسائل کا سامنا ہے، پنجاب کے حلقوں میں بیوروکریسی ان اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی بجائے صرف وزیر اعلیٰ کی ٹیم کو رپورٹ کرتی ہے۔

پنجاب میں بیوروکریسی کے تقرر و تبادلوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور پنجاب حکومت کے درمیاں ماضی قریب میں بھی اختلافات سامنے آئے جس کے باعث سیاسی درجہ حرارت چند ماہ قبل بھی اوپر جاتا دکھائی دیا، اب سیلاب کی صورتحال میں جب بلاول بھٹو زرداری نے جنوبی پنجاب کے علاقوں کے دورے کے دوران متاثرین کی مدد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کرنے کا مشورہ دیا تو مریم نواز نے اس بات کو پنجاب کی پالیسیوں میں مداخلت قرار دیا اور اس کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔

مریم نواز کا یہ غصہ ایک سیاسی کارڈ بھی ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ حلقوں کے خیال میں پیپلز پارٹی کی قیادت پر تنقید شاید مریم نواز کو مقبول بھی کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ سیاسی لڑائی سے زیادہ پنجاب کارڈ کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

دونوں جماعتوں کے درمیان اس کشیدگی میں اگر حکمت عملی دیکھی جائے تو پیپلز پارٹی دوسرے درجے کی قیادت سے مریم نواز کو جواب دلوا رہی ہے، ساتھ ہی ساتھ کچھ ہم خیال لوگوں کے ذریعے بھی مریم نواز سے متعلق مبینہ خبریں اور بیانات سامنے آ رہے ہیں، مسلم لیگ( ن) کی جانب سے مریم نواز خود فرنٹ فٹ پر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے شرجیل میمن اور سینیٹر پلوشہ سمیت دیگر رہنما پریس کانفرنسز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پیپلز پارٹی اس تاثر کو تقویت دے رہی ہے کہ مریم نواز وفاقی حکومت کو مشکل میں ڈال رہی ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی نے مریم نواز سے معافی کا مطالبہ کیا جو انہوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ پنجاب کے حقوق کی بات کرتی رہیں گی اور اس کے لئے وہ کسی سے معافی نہیں مانگیں گی، اپنے چچا کی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرنے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ مخالفین کو تنقید کے لئے کچھ اور نہیں ملتا تو (ن) میں سے( ش) نکالتے ہیں، اب( ش) میں سے (میم) نکال رہے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے وضاحت کی کہ ن م اور ش سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں یعنی ان میں کوئی اختلافات نہیں اور پالیسی ایک ہے، مریم نواز مسلسل پرفارمنس کا طعنہ دے رہی ہیں، چند روز قبل انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ملک کے تمام صوبوں کو یکساں وسائل مل رہے ہیں تو پنجاب اور باقی صوبوں میں فرق کیوں ہے؟ باقی صوبوں کو ملنے والا پیسہ کہاں جاتا ہے؟ پیپلز پارٹی نے مریم نواز کے رویے کے خلاف پارلیمنٹ کے ایوانوں سے احتجاجی واک آؤٹ بھی کیا مگر تاحال کچھ بن نہیں پایا۔

ایسی صورتحال میں جب (ن) لیگ کی حکومت پیپلز پارٹی کے اراکین کے ووٹوں کی سپورٹ سے بنی ہے کیا پیپلز پارٹی حکومت سے نکلنے کا سوچ رہی ہے؟ دونوں جماعتوں کے ذمہ داران یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی ایسا کرنے کا وقت نہیں آیا، پاکستان پیپلز پارٹی شہباز حکومت سے الگ ہو کر خود کو اور نظام کو مشکلات سے دوچار کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، مگر حکومت کو پھر بھی پیپلز پارٹی کے نمبرز کی ضرورت ہے کیونکہ آنے والے کچھ عرصے میں ستائیسویں آئینی ترمیم کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور پیپلز پارٹی کی مدد کے بغیر حکومت یہ ترمیم منظور نہیں کروا سکتی۔

حکومت کو اہم قانون سازیوں کے لئے پیپلز پارٹی کی سپورٹ کی ضرورت رہے گی، اسی وجہ سے قوی امکان ہے کہ آئندہ ہفتے میں دونوں پارٹیوں کے بڑے مل بیٹھیں اور معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لئے براہ راست کردار ادا کریں۔