پشاور: (دنیا نیوز) پشاور میں موجود مصنوعی اعضاء بنانے والی قدیم ورکشاپ خیبر ٹیچنگ اسپتال سے باہر منتقل کر دی گئی ہے۔ محکمہ صحت اور سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ کے جھگڑے میں پاکستان کی سب سے پہلی مصنوعی اعضاء بنانے والی ورکشاپ کی کروڑوں کی مشینری خراب ہورہی ہے.
جرمن حکومت کے تعاون سے مصنوعی اعضاء بنانے والی ورکشاپ 38 سال پہلے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کی بیسمنٹ میں قائم ہوئی تھی۔ خیبرٹیچنگ ہسپتال انتظامیہ نے تعمیرومرمت کے نام پر یہ ورکشاپ ہسپتال سے باہر منتقل کر دی، جہاں کروڑوں روپے مالیت کی مشینری جگہ نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہو رہی ہے۔ اس ورکشاپ میں پولیو سے متاثرہ افراد سے لیکر پیدائشی یا کسی حادثے میں معذور ہونے والے افراد کیلئے مصنوعی اعضاء بنائے جاتے ہیں۔
یہ ورکشاپ اب تک 29 ہزار معذور افراد کی مدد کر چکی ہے۔ کے ٹی ایچ کی حدود سے نکال کر اس ورکشاپ کو سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ کی عمارت میں منتقل کیا گیا ہے، لیکن تھری فیز بجلی کی عدم فراہمی کے باعث یہ عملی طور پر غیرفعال ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبہ بھر سے تین سے چار ہزار معذور افراد سالانہ اس ورکشاپ سے مستفید ہوتے تھے۔ معذور افراد کو صحت مند زندگی کی نوید دینے والا یہ ادارہ گزشتہ چھ ماہ سے غیرفعال ہے۔ دو سرکاری محکموں کی چپقلش نے ہزاروں افراد کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔