ساز بازکرنے والوں کے طریقے

Last Updated On 13 May,2018 06:45 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) زندگی میں ایسے افراد سے واسطہ پڑتارہتا ہے جو ساز باز اور جوڑ توڑ کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مقاصد جن میں طاقت، اختیار، کنٹرول ، سرمایہ یا مراعات کا حصول شامل ہیں، دوسروں کے ذہنوں اور جذبات سے کھیلتے رہتے ہیں۔ موجودہ دور میں مسابقت بہت زیادہ ہے۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ جاری ہے۔ تاہم جوڑ توڑ اور ساز باز کرنے والوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ سبقت لینے کے لیے وہ زیادہ تر منفی طریقے آزماتے ہیں۔ کامیاب سازشی وقت کے ساتھ اس کام میں خاصے ماہر ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے دوسرے کا نقصان چاہے ہو جائے لیکن انہیں فائدہ پہنچے گا۔ ساز باز سے ملنے والی ابتدائی کامیابیاں ان کے رویے کو پختہ بنا دیتی ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ دوسروں کے ذہنوں کو متاثر کرنے اور اپنا مفاد پانے کے لیے وہ کون سے طریقے آزماتے ہیں۔ ذیل میں جو طریقے بیان کیے گئے ہیں ان میں سے کبھی ایک دو اور کبھی بیشتر آزمائے جاتے ہیں۔ ساز باز کرنے والے اپنے ہدف کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ وہ انہیں باورکراتے ہیں آپ تو ہیں ہی نالائق! یوں دوسرا اپنی ذات کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اگر کسی فرد کے بارے میں مسلسل منفی رائے دی جائے اور اس پر تنقید کی جائے اور وہ بھی سرعام، تو وہ شرمندہ ہو گا یا بے عزتی محسوس کرے گا۔ دوسرے کی مذاق میں بھی تذلیل کی جاتی ہے اور اس کے دوستوں یا ملنے جلنے والوں کی نظروں میں بھی اسے گرایا جاتا ہے۔ ایسے اشارے بھی دیے جاتے ہیں جن سے وہ غیر محفوظ محسوس کرے۔

مثال کے طور پر ملازمت کے بارے میں عدم تحفظ کا احساس دلانا۔ ساز باز کا ’’فن‘‘ صرف یہاں تک محدود نہیں، یہ خاصا وسیع ہے۔ دوسرے کے جذبات سے ’’مثبت‘‘ انداز میں بھی کھیلا جاتا ہے تاکہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے اس سے رشتہ قائم کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر اس کی انا کو بہت زیادہ تکریم دے کر تسکین پہنچائی جاتی ہے۔ جھوٹی موٹی تعریفیں کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ فلرٹ کیا جاتا ہے۔ یا پھر کسی کام میں مدد کرنے کی آفر کی جاتی ہے۔ چہرے سے اچھے اچھے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے، مثلاً مسکراہٹ کے ساتھ ملنا، گرم جوشی سے ہاتھ ملانا وغیرہ۔

ایک طریقہ ہدف بنائے گئے فرد کے بارے میں دوسروں کے ادراک پر اثر انداز ہونا ہے تاکہ اس پر کنٹرول پایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے اس کے بارے میں سفید جھوٹ بولا جاتا ہے یا سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ کر دی جاتی ہے۔ کبھی کم اہم باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر دیا جاتا ہے اور کبھی اہم باتوں کو گھٹا کر سامنے لایا جاتا ہے۔ یعنی حقائق بیان کرنے یا رائے دینے میں تعصب کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

ساز باز کرنے والوں کے کچھ گُر تھوڑے مشق طلب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنی ’’دکھ بھری‘‘داستانیں سنا کر ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ صورت حال کو ڈرامائی رنگ دے دینا جس سے دوسرا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس کام کے لیے چرب زبانی اور اداکاری معاون ثابت ہوتے ہیں۔ مگر کچھ افراد سیدھا سیدھا اپنے مقام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جارحیت کرتے ہیں۔ ان میں ذہنی دباؤ میں مبتلا کر نا، غصہ ظاہر کرنا، مالی نقصان پہنچانا یا سخت قواعد و ضوابط کا پابند کرنا شامل ہے۔

دنیا میں ساز باز کرنے والے ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے۔ کئی بار انہیں منہ کی بھی کھانی پڑتی ہے اور وہ اپنے دام میں خود ہی آ جاتے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی گفتگو اور تعلقات میں جب دوغلا پن دکھائی دینے لگتا ہے تو لوگ چوکنا ہو جاتے ہیں اور ان کے خلاف اپنے گرد ایک حصار سا بنا لیتے ہیں۔ وہ ان کے بارے میں محتاط رہنے لگتے ہیں۔اس پر کم اعتماد کیا جانے لگتا ہے اور اس کی ساکھ خراب ہو جاتی ہے۔ اردگرد کے افراد اس سے کم دوستیاں بناتے ہیں اور انہیں صحت مندانہ تعلقات استوار کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس طرح وہ معاشرے سے کٹے

رہتے ہیں اور ذہنی و جذباتی دباؤ کا وقتاً فوقتاً شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں احساس ندامت بھی جنم لیتا رہتا ہے کیونکہ ہر شے چھپی نہیں رہ پاتی اور ساز باز سامنے آہی جاتے ہیں جس پر انہیں ملامت بھی کی جاتی ہے۔ ساز باز کرنے والے افراد میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔ لیکن اس کے لیے انہیں قوت ارادی، فیصلے اور معاونت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وہ ارادہ کر لیں تو انہیں اپنی ذات میں پائے جانے والی اخلاقی بحران اور ضمیر کی خلش سے نجات مل سکتی ہے۔

تحریر: رضوان عطا