لاہور: (روزنامہ دنیا) اکثر ہماری زندگیوں میں بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی باتوں کو جاننے کی بے صبری دیکھی جاتی ہے،کبھی ہسپتال میں آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھے مریض کے رشتے دار ہاتھ اٹھائے بند دروازے کے کھلنے کے انتظار میں پریشانیوں کے گھونٹ بھر رہے ہوتے ہیں کہ کب ڈاکٹر آ کر ان کو وہ تسلی بخش خبر دے گا اور وہ سکھ کا سانس لے سکیں گے، تو کبھی کچھ لوگ ان دروازوں کے پیچھے کی حقیقت جاننے کی تگ و دو میں بھی لگے ہوتے ہیں جن سے انہیں کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ میاں بیوی کے جھگڑے کی آواز سن کر ان کی ٹوہ میں لگ جانا،کان لگا کر ان کی باتیں سننے کی کوشش کرنا، جو کہ انتہائی غلط بات ہے۔ تو کبھی گھر کے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر دروازہ کھلنے کی بے صبری ہونا۔
ایسے ہی کئی اور دروازوں سے ہمارا سامنا ہو جاتا ہے۔ مگر ان سب دروازوں سے ہٹ کر کچھ دروازے واقعی ایسے ہوتے ہیں جو کسی دستک کے منتظر ہوتے ہیں، وہ دروازہ کسی کا بھی ہو سکتا ہے،کسی غریب بہن بھائی کا، کسی رشتے دار کا، کسی پڑوسی کا۔ مگر ان دروازوں کے پیچھے کی حقیقت جاننے میں دلچسپی کم ہی دیکھی جاتی ہے۔ ایسے دروازے جن کے پیچھے کوئی غریب باپ خالی جیب لیے اپنا سر پکڑ کر بیٹھا ہوتا ہے اور ماں اس سوچ سے تڑپ رہی ہوتی ہے کہ آج وہ کیا بہانہ کر کے اپنے بھوکے بچوں کو سلائے گی۔
ایسے بند دروازے جہاں کوئی غریب کسی مسیحا کی مدد کا منتظر ہوتا ہے مگر شرم کے باعث ہاتھ نہیں پھیلاتا اور اپنا پردہ رکھ لیتا ہے۔ ایسے بند دروازے جہاں بوڑھے ماں باپ اپنے بچوں کی ایک دستک کیلئے آنسو بھری آنکھوں سے دروازے کو دیکھتے رہتے ہیں کہ شاید ان کی اولاد کے پاس ان کے لیے کچھ وقت ہو۔ تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ایسے دروازوں کے پیچھے ہونے والی حقیقتوں کو جاننے کی کوشش کی جائے۔ اکثر ہم ایسے دروازوں کو جانتے بھی ہیں مگر دستک دینے میں دیر کر دیتے ہیں۔ اپنے اردگرد غور کریں ہو سکتا ہے ایسا ہی کوئی دروازہ آپ کی دستک کا منتظر ہو۔
تحریر: مناحل عثمان