بچوں کا بولنا

Last Updated On 16 May,2018 06:33 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) جب ننھے منے بچے کوئی آواز نکالتے ہیں تو بچے کے والدین فوراً متوجہ ہوتے ہیں۔ انہیں انتظار ہوتا ہے کہ بچہ کب واضح الفاظ بولے گا، اور جب ایسا کوئی لفظ نکالتا ہے تو وہ بے حد خوش ہوتے ہیں اور جن اہل خانہ کو معلوم نہیں ہوتا انہیں بتاتے پھرتے ہیں۔ بچوں کی زندگی کا یہ ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر بچے اپنی پہلی سال گرہ سے قبل ’’ماما‘‘ اور ’’بابا‘‘ جیسے الفاظ ادا کرنے لگتے ہیں۔ وہ 18 ماہ کی عمر تک بیس کے قریب الفاظ ادا کرنے لگتے ہیں۔

پہلی سال گرہ سے قبل بچے اپنی آواز اور بیرونی ماحول کا ربط تلاش کرتے رہتے ہیں۔ 9 ماہ کی عمر تک ایک دو آوازوں کو آپس میں ملانے کے قابل ہوتے ہیں جیسے ’’ماما‘‘ کہنا۔ عین ممکن ہے کہ وہ ابھی اس کا مطلب نہ سمجھتے ہوں اور نقل کر رہے ہیں۔ لیکن 12 ماہ کی عمر سے قبل انہیں بیرونی اشیا میں سے چند ایک کو پہچاننا اور انہیں ناموں سے منسوب کر لینا چاہیے۔ جیسا کہ ’’دودو‘‘ (دودھ)۔ جو بچے چیزوں کو غور سے دیکھیں مگر آوازوں پر ردعمل ظاہر نہ کریں انہیں سماعت کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔

ایک سال کے بعد انہیں مختلف طرح کی آوازیں نکالنا شروع کردینی چاہئیں جنہیں وہ سنتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ب، پ، ت، د‘‘ وغیرہ۔ انہیں 2 برس کی عمر سے قبل سادہ جملے ادا کرنے کے قابل ہونا چاہیے چاہے وہ تھوڑے بے ربط ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے ’’ماما دودو‘‘۔ دو سال کے بعد ان کے الفاظ کے ذخیرے میں اضافہ ہونا چاہیے اور تین یا اس سے زائد الفاظ کو ملا کر جملہ بنا لینا چاہیے۔ ان کی سمجھ بوجھ میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ تین برس کی عمر کے بچے کو اس طرح کے جملوں کو سمجھ جانا چاہیے جیسا کہ ’’بستر پر سو جاؤ‘‘۔ اگر آپ کا بچہ مندرجہ ذیل علامات ظاہر کرے تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

ایک سال کی عمر تک سادہ جسمانی حرکات نہ کرنا۔ مثلاً کسی شے کی جانب اشارہ نہ کرنا یا ’’بائے بائے‘‘ کے لیے ہاتھ نہ ہلانا۔ 18 ماہ تک بات کرنے کی کوشش نہ کرنا بلکہ جسمانی حرکات سے بات سمجھانے کی کوشش کرنا۔ سنی گئی سادہ آوازوں کی نقل اتارنے کے قابل نہ ہونا۔ سادہ زبان میں کیے گئے مطالبے کو نہ سمجھنا جیسا کہ ’’بیٹھ جاؤ‘‘ یا ’’ادھر آؤ‘‘۔ دو سال کی عمر تک چند ہی الفاظ کو بار بار دہراتے رہنا اور اپنی ضروریات کو زبان سے بیان کرنے سے گریز کرنا۔ سادہ احکامات کو نہ سمجھنا یا اس پر عمل نہ کرنا۔ آواز کا غیرمعمولی ہونا۔بولنے میں تاخیر نارمل بھی ہو سکتی ہے لیکن اسے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔اس کی بعض وجوہ بھی ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر زبان یا منہ کے اوپری حصے میں کوئی نقص یا مسئلہ۔ اس کے علاوہ زبان کے لیے مخصوص دماغ کے حصے کو کسی طرح کا نقصان بھی بولنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے بچہ ہونٹوں، زبان اور جبڑوں میں ربط قائم نہیں کر پاتا۔ ان بچوں کو دودھ پینے میں بھی مشکل ہو سکتی ہے۔

بولنے میں تاخیر کی ایک وجہ سماعت کی خرابی ہوتی ہے۔ اگر بچہ سنے گا نہیں تو بولے گا کیسے۔ بچہ اردگرد کی آوازوں کو سن کر بولنا سیکھتا ہے۔ اگر آپ کو شک پڑے کہ بچے کو سنائی نہیں دیتا یا کم سنائی دیتا ہے تو ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں تاکہ اس کی قوت سماعت کا معائنہ کیا جا سکتے۔ سماعت میں خرابی ضروری نہیں کہ پیدائشی ہو۔ یہ پیدائش کے بعد کسی انفیکشن سے ہو سکتی ہے۔

اگر بچہ تاخیر سے بولے تو زیادہ وقت ضائع کیے بغیر اس کے اسباب کو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ بچے کے مستقبل کے لیے اہم ہے۔ والدین سب سے پہلے بچے کے مسئلے کا پتا چلا سکتے ہیں، اس لیے انہیں اپنے بچے کے ساتھ زیادہ وقت بتانا چاہیے۔ اس سے باتیں کرنی چاہئیں اور اسے لوریاں اور بچوں کے گانے سنانے چاہئیں۔ بچے کو وہ الفاظ دہرانے کی ترغیب دینی چاہیے جو آپ ادا کر رہے ہیں۔ اسے اشیا دکھا کر ان کے نام بتانے چاہئیں۔ اس کے ساتھ جو کام کر رہے ہوں وہ بھی بچے کو عمر کے لحاظ سے بتائیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔

ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا