لاہور: (روزنامہ دنیا) بے شمار پُراسرار، انوکھے اور عجیب و غریب نمونے آج بھی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ہم ان کی وجوہات کو پانے میں ناکام رہے۔ چاند کا سفر کرنے والا انسان کرۂ ارض پر قدرت کی نعمتوں اور اس کی پُراسرایت کے رازوں کے سرے تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ اب بھی اس کرۂ ارض پرعجائبات عالم، اشیاء اور راز پائے جاتے ہیں جن کی تہ تک بے بس انسان نہیں پہنچ سکا۔ دنیا پر کس نے،کب، کتنی دیر حکومت کی، ان قوموں نے کتنی ترقی کی؟ کون سی اشیاء بنائیں، کھانے پینے کا سامان کہاں سے، کس طرح حاصل کیا۔ یہ سب کچھ سر بستہ راز ہے۔
‘‘آسمانی مخلوق’’ کی آمد حال ہی میں گوگل میپ پر امریکی ماہرین نے ’’جناتی سیڑھیوں‘‘ کا سراغ پایا ہے۔ امریکی ماہر گوگل میپ پر مصروف تھا کہ اچانک اس کی نظر انٹار کٹیکا کے برف پوش علاقے میں قد آدم سیڑھیوں پر پڑ گئی جنہیں آپ بھی گوگل میپ پر دیکھ سکتے ہیں۔ اس نے ان انوکھی، بلند و بالا سیڑھیوں سے اپنے ساتھیوں کو آگاہ کیا اور پھر آناً فاناً اس برفانی علاقے میں کسی زمانے میں اڑن طشتریوں یا آسمانی مخلوق کی آمد کے قصے مشہور ہو گئے۔ یہاں رہتا تو کوئی تھا نہیں، ہو نہ ہو یہ سیڑھیاں کسی غیر زمینی مخلوق نے خطے میں اترنے کے لئے بنائی ہوں گی جو اب یہاں موجود نہیں۔ پہلے پہل امریکی ماہرین کے نزدیک اس ٹھنڈے علاقے میں تہذیب آباد نہ تھی، یا تو جناتی نسل (Giants) آئے ہوں گے، اس علاقے میں ہی آباد رہے اور بعدازاں زمانے کے حوادث، منفی درجہ حرارت نے ان کا نام و نشان مٹا دیا۔ اس کی اہمیت کا انداہ لگائیے، سابق وزیر خارجہ جان کیری، روس کے مذہبی رہنما پیٹریاخ کیرائل اور معروف خلا باز ڈس آلڈرین بھی اس خلائی مخلوق کا راز جاننے کے لیے مقامی پہاڑی سلسلے کا دورہ کر چکے ہیں۔
امریکی اڑن طشتریوں کی کہانیوں میں دلچسپی رکھنے والے امریکیوں کے نزدیک جان کیری کا مشن کچھ نہ کچھ تو ڈھونڈ نکالے گا۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہاں قدرت نے کسی نہ کسی کو تو بھیجا ہوگا۔ اسی لئے جان کیری وہاں پہنچے۔ روس کے مذہبی رہنما بھی اس علاقے میں آسمانی مخلوق کی آمد کا راز جاننے کے لئے پہنچےکہ اس کے پیچھے کوئی انسانی تہذیب دفن ہے یا آسمانی مخلوق پہنچی، اسی پر ان کی تفصیلی رپورٹ زیر ترتیب ہے۔ جبکہ امریکی حکومت نے ناسا کی مدد سے معروف خلا باز ڈس آلڈرین کو خود یہاں بھیجا تاکہ وہ چاند کے سفر کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا تعلق چاند کے ساتھ جوڑ سکیں۔ یعنی اس میں اور چاند میں کوئی مماثلت ہے بھی یا نہیں۔ ان کے بقول، یہ آثار چندا ماما سے ملتے جلتے ہیں،کیا یہاں چندا ماما سے کوئی آیا؟۔
ان کے نزدیک ہم نے اہرام مصر کو سمجھنے میں بھی غلطی کی ہے۔ یہ وہ نہیں ہیں جو ہم سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ انسانوں کی صلاحیت سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ڈھانچے ہیں، وہ سوال کرتے ہیں کہ یہاں ’’جنوں‘‘ نے اعلیٰ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی یا کوئی زمینی مخلوق ہی تھی جو اب موجو د نہیں۔ امریکہ میں ان دیو قامت سیڑھیوں کو لے کر سازشی تھیوریوں پر بحث جاری ہے۔ کیا زمین پر انسان سے پہلے کوئی اور نسل آباد تھی جو انسان سے زیادہ طاقتور اور قوی ہیکل تھی؟ اسی نے انسان سے کہیں زیادہ بڑے ڈھانچے قائم کیے، یہ نسل انٹارکٹیکا کے وسیع وعریض پہاڑی سلسلے میں کہیں آباد تھی اور وہیں ناپید ہوگئی یا پھر اڑن طشتری سے کوئی آیا، یہاں پڑائو ڈالا اور پھر واپس چلا گیا؟ سائنسدان اور سیاستدان، دونوں ہی متحرک ہیں۔
اب ایک نیا نظریہ پیش کیاگیا ہے وہ یہ کہ انٹارکٹیکا کے برفانی سلسلوں کے نیچے نامعلوم تہذیب اور ٹیکنالوجی دفن ہے۔ یہ ٹیکنالوجی درحقیقت اڑن طشتریوں کے ذریعے زمین پر اترنے والی آسمانی مخلوق نے دفن کی۔ لاوے کے بنے ہوئے گیند! کوسٹا ریکا میں 6 سو صدی عیسوی کے ’’ گیند ‘‘دریافت ہوئے ہیں، یہ عام، معمولی گیند نہیں بلکہ پہاڑی لاوے سے بنائے گئے ہیں۔ زمانہ قدیم میں یہاں کسی پہاڑ نے لاوا اگلا، جسے (شائد) جمنے سے پہلے ہی مقامی باشندوں نے گیند میں ڈھال لیا۔ ورنہ ایک مرتبہ جب لاوا جم جائے تو اسے کسی اور شکل میں ڈھالنا آسان کام نہیں۔ ایک دو ہوتے تو یہ سمجھ لیا جاتا کہ شائد زمینی گولائی کی وجہ سے گول ہو گیا۔ مگر یہ مضبوط، بھاری بھرکم ’’لاواگیند‘‘ کوسٹا ریکا کے جنوبی ڈیلٹا ڈیکوئس (Diqs) ڈیلٹا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کچھ کے خیال میں یہ بھی کسی آسمانی مخلوق نے بنائے ہوئے ہوںگے ۔کیونکہ انسان اب تک لاوے سے کوئی شے نہیں بنا سکا۔
یوں بھی گرما گرم لاوے کے قریب تو کیا تھوڑا دور رہنا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ بعض انہیں بھی اڑن طشتریوں کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں! تانبے کی تختیاں کافی عرصے سے محققین بحر مردار کے علاقوں میں قدیم ترین آثار کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ کچھ لگ ہی جاتا ہے، اس مرتبہ Dead Sea Scrolls کی دریافتوں میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ دریافت 1952ء میں ہوئی مگر اب وہ تختیوں پر لکھی ہوئی زبان کو ڈی کوڈکرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ماہرین نے ان نئی دریافتوں کو ’’تانبے کی تختیوں (The Copper Scroll Treasure)کا نام دیا ہے ۔ دوسری دریافتوں کے ساتھ یہ دریافت بھی عجائبات عالم میں سے ایک ہے۔
ان پر پر اسرار زبان میں کچھ لکھا تھا اس کا ’’ترجمہ‘‘محققین نے کر لیا ہے جو اس طرح ہے۔۔۔۔’’ایک قلعہ میں جوویل آف ایکر (Vale of Achor) میں واقع ہے۔ مشرق کی جانب دولت کا ایک خزانہ ہے۔ 40 قدم آگے ایک بڑے سے صندوق میں دفن ہے، جس میں ہنر مندوں کے نمونے محفوظ ہیں‘‘۔ سائنسدانوں اور محققین نے اس خزانے کا نقشہ اور راز تو پالیا مگرڈھونڈنے میں ناکام ہیں۔ بغداد کی بیٹریاں 2 ہزار برس قبل از مسیح میں بغداد کے پرجوت نابو نامی نواحی علاقے میں بڑے بڑے دو’’مرتبان‘‘دریافت ہوئے ہیں۔ مٹی کے بنے ہوئے یہ مرتبان دراصل اہل بغداد نے بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بنائے تھے۔
آج کل تو بیٹریوں کو ایک ہی ’’ڈبے‘‘ میں پیک کر کے اندرونی طور پر اسے الگ الگ کردیا جاتا ہے۔ مگر اہل بغداد نے اس زمانے میں دو الگ الگ مرتبانوں کو نیچے سے لوہے کی ’’سلاخوں‘‘ سے جوڑ کر بجلی بنانے کا طریقہ ڈھونڈا تھا۔ اسی لئے انہیں ’’بغداد کی بیٹری‘‘ کہا جاتا ہے۔ مٹی سے بنے ہوئے ان دیو قیامت مرتبانوں کے نچلے حصے لوہے کی سلاخوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سرکہ ڈالتے ہی 1.1 والٹ کا کرنٹ دوڑنے لگتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ ناپید ہو جانے والی نسل کی بیٹریاں تھیں۔ تاہم یہ بیٹریاں بنانے والی نسل کا سراغ نہیں مل سکا۔
تحریر: صہیب مرغوب