لاہور: (روزنامہ دنیا) گردوں کی خرابی کے باعث کام سے اکتاہٹ اور تھکاوٹ ہونے لگتی ہے۔ مریض اکثر متلی کی شکایت کرتا ہے اور بھوک کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جسم سے زائد پانی کا اخراج نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے تمام جسم یا آنکھوں کے گرد سوجن ہو جاتی ہے۔ سانس پھولنے لگتا ہے۔
کچھ مریضوں میں پیشاب کی مقدار میں بھی کمی آ جاتی ہے۔ خون میں ناکارہ اور زہریلے مادوں کا اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ دل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
خون کی کمی کی وجہ سے پیلاہٹ آ جاتی ہے۔ تھوڑا سا چلنے سے بھی سانس کی تکلیف ہو جاتی ہے۔ فاسد مادوں کے باعث اکثر قے ہو جاتی ہے اور مریض پر بے ہوشی طاری ہونے لگتی ہے اور علاج نہ ہونے کی صورت میں اپنی جان سے ہاتھ بھی دھو سکتا ہے۔
گردے فیل ہونے کی کئی ایک وجوہات ہیں تاہم اہم ذیابیطس، بلند فشارِ خون (بلڈ پریشر)، گردے کی پتھریاں، گردے کی سوزش شامل ہیں۔ یہاں تک کہ کشتہ جات اور دیگر نامعلوم ادویات کے استعمال سے بھی گردے متاثر ہوتے ہیں۔
گردے کی نالیوں میں مردانہ غدود بڑھنے کی وجہ سے پیشاب کے اخراج میں رکاوٹ اور اس کے علاوہ کچھ موروثی اور پیدائشی بیماریاں بھی اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ ذیابیطس اور بلند فشارِ خون کے مریضوں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ گردوں کے ماہر ڈاکٹروں سے رابطہ رکھیں کیونکہ یہ دونوں امراض انسانی جسم کے تقریباً سارے اعضا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مگر گردے خاص طور پر ان کا شکار بنتے ہیں۔ ذیابیطس اور بلند فشارِ خون کو علاج اور پرہیز سے کنٹرول کر کے گردوں کو ناکارہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ صحت مند انسان کے جسم سے بہت زیادہ مقدار میں پانی نکلنے یا خون بہہ جانے سے گردے فیل ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح ادویات کی الرجی، شدید گرمی یا حادثے کی صورت میں پٹھوں کو نقصان پہنچنے، کسی زہریلے جانور کے کاٹنے اور زہریلی ادویات سے بھی گردے فیل ہو جاتے ہیں۔ بچوں اور بڑوں میں اسہال کے مرض سے پانی اور نمکیات خارج ہونے، موسمی اور معیادی بخار کی تپش، کم پانی پینے یا پھر زچگی کے دوران زیادہ خون بہہ جانے سے اچانک گردے فیل ہو سکتے ہیں۔
گردوں کے ماہرین کی تشخیص کے مطابق گردے مستقل طور پر فیل ہو گئے ہوں تو پھر یہ مشکل ہے کہ گردے دوبارہ اپنا کام سرانجام دینے کے قابل ہوں۔ مستقل طور پر فیل شدہ گردوں کے ساتھ انسانی زندگی ممکن نہیں ہے۔
ایسی صورت میں زندہ رہنے کے لیے ان کی صفائی کی یعنی مستقل ڈائلیسز یا گردوں کی تبدیلی لازمی ہے۔ گردے مکمل فیل ہو جانے کی صورت میں بعض اوقات اس کا بہترین علاج گردے کی تبدیلی ہوتا ہے جس کے متعلق ماہرین طب بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے لیے عمر کی حدود بھی ہوتی ہیں۔
گردے لینے اور دینے والوں کے خون کا گروپ ایک جیسا ہونا ضروری ہے۔ گردے لینے اور دینے والے افراد میں جتنا خونی رشتہ ہو گا گردے کی تبدیلی میں کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ گردے فیل ہونے والے مریضوں کو اپنی خوراک کے بارے میں آگاہی ضرور ہونی چاہیے۔
ان مریضوں کا نصف علاج خوراک کی احتیاط میں ہے۔ انسانی خوراک کا ایک اہم جزو پروٹین یا لحمیات ہیں مگر جب گردے کمزور ہو جائیں تو کھانے میں پروٹین کی مقدار میں کمی کر دینی چاہیے تاہم مکمل طور پر ہرگز بند نہیں کرنی چاہیے۔
اسی طرح ڈاکٹر کے مشورے سے بعض پھل کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ان میں پوٹاشیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو کہ گردے فیل ہونے والے مریضوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کی زیادتی دل پر اثر انداز ہوتی ہے۔
مریض کی علامات، خون کے ٹیسٹ اور الٹراساؤنڈ سے گردوں کی خرابی کا پتا چل جاتا ہے۔ گردوں کی بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر ان کے علاج کے لیے مناسب پیش بندی کر لی جائے تو گردوں کو فیل ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔