لندن: (ویب ڈیسک) ہبل دوربین کی مدد سے حاصل شدہ تصاویر اور ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد بین الاقوامی ماہرینِ فلکیات نے پہلی مرتبہ کائنات میں ایک ایسی بلبلہ نما ساخت دریافت کی ہے جو کہکشاؤں پر مبنی ہے اور اس کی غیرمعمولی وسعت کا اندازہ ایک ارب نوری سال لگایا گیا ہے۔
یہ بلبلہ ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں سے 10 ہزار گنا بڑا ہے اور اسی کہکشاں سے 82 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، خیال ہے کہ یہ عظیم بلبلہ بگ بینگ کے فوری بعد پیدا ہوا تھا اور یوں قدیم کائنات کو سمجھنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے، اسی بنا پر ماہرین نے اسے کائناتی رکاز (فاسل) بھی کہا ہے۔
حیرت انگیز طور پر بڑے اس کائناتی مظہر سے ایک جانب تو خود سائنسداں حیران ہیں تو دوسری جانب اس کا مطالعہ کئی دلچسپ انکشافات کا اضافہ کرتا ہے۔
جامعہ کوئنزلینڈ سکول آف میتھمیٹکس اینڈ فزکس سے وابستہ ڈاکٹر کیولن ہووٹ بھی اس تحقیق کا حصہ رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس کائناتی عجوبے کو دیکھ کر ہم خود انگشت بدنداں ہیں کیونکہ یہ ہم سے بہت ہی قریب ہے۔
ڈاکٹر کیولن کے مطابق اسے دیکھ کر کائناتی پھیلاؤ کی رفتار معلوم کی جاسکتی ہے اور یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری کائنات کتنی وسیع ہو سکتی ہے، ان کے مطابق اس دریافت کی روشنی میں کائناتی تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔
یہ تحقیق اس ہفتے کے ’ایسٹرفزیکل جرنل‘ میں شائع ہوئی ہے، تحقیق کے مطابق ابتدائی کائنات میں گرم پلازمہ کی وجہ سے ثقلی اور ریڈیائی عمل سے صوتی (آواز) کی امواج خارج ہوئی تھیں جنہیں ’بیریئن اکاسٹک آسلیشن‘ (بی اے او) کہا جاتا ہے، ماہرین نے 2005 میں بے اے او کے سگنل محسوس کئے تھے۔
تاہم بگ بینگ کے 380000 برس بعد یہ عمل رک گیا، کائنات کچھ ٹھنڈی ہوئی اور کہیں کہیں بلبلوں کی شکلیں وجود میں آگئیں، پھر یہ بلبلے پھیلے اور خوب بڑے ہوئے، لیکن انہیں ہم ابتدائی کائنات کی اولین نشانیاں کہہ سکتے ہیں اور یہ بلبلہ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔