ریاض (نیٹ نیوز ) عرب ممالک میں ماہ صیام کےدوران سحری اور افطاری کے ماکولات میں ایک تاریخی سویٹ ڈش’الکنافہ‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ’الکنافۃ‘ کب اور کیسے ایجاد ہوئی اس کے بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں
مگر یہ مورخین کا بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ یہ صدیوں سے بلاد شام، مصر، عراق میں مقبول حلویات میں شامل رہنے کے بعد اب خلیجی عرب ممالک میں بھی اتنی مرغوب غذا بن چکی ہے۔
’الکنافۃ‘ کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ اس کے بارے میں تاریخی کتب میں متنوع کہانیاں موجود ہیں، حتیٰ کہ شعراء نے اپنے عربی قصاید میں بھی اس کا تذکرہ کرکے اس کی تاریخی اہمیت ثابت کی ہے۔
’الکنافۃ‘ معاویہ
’الکنافۃ‘ نامی اس تاریخی سویٹ ڈش کے بارے میں ایک مشہور روایت اس مسلمان خلیفہ اور صحابی رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے نسبت بھی ہے۔ کہا جاتا ہےکہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کے دورمیں ماہ صیام میں ان کے لیے خاص طورپر ’الکنافۃ‘ تیار کی جاتی۔ جب وہ دمشق میں قیام پذیر تھے اس وقت ان کے سحری اور افطاری کے کھانوں میں یہ ایک مستقل غذا کا درجہ رکھتی تھی۔
یہیں سےبعض مؤرخین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’الکنافۃ‘ بلاد شام ہی کی ایجاد ہے تاہم اس کی حضرت معاویہ کےساتھ نسبت کا کوئی اور ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ البتہ ’کنافۃ معاویہ‘ کی اصطلاح موجود ہے۔ عین ممکن ہےکہ معاویہ سے مراد معاویہ بن ابی سفیان کے بجائے کوئی اور معاویہ ہو۔
البتہ ’الکنافۃ‘ کو عرب اقوام صدیوں سے خوشی کے مواقع بالخصوص مذہبی تقریبات اور ماہ صیام کےدوران خاص طورپر کھاتے۔
ایک روایت کے مطابق حضرت معاویہ کو ان کے معالج نے یہ سویٹ ڈش تجویز کی تھی جب کہ دوسری روایت میں یہ ہےکہ ’الکنافۃ‘ ان کی اپنی ایجاد تھی۔ بعد ازاں یہ غذا سے بڑھ کر دمشق کے معالجین کے ہاں ایک دوا کی شکل بھی اختیار کرگیا۔ اموی دور حکومت کے لٹریچر میں ’الکنافۃ‘ اور اس قبیل کی دوسری کئی حلویات کے تاریخی کتب میں تذکرے موجود ہیں۔ بعض مرورزمانہ کےساتھ ختم ہوگئے مگر’کنافہ‘ آج بھی عرب دنیا میں برابر مقبول ہے۔
فاطمی، ایوبی اور ممالیک کا دور
مصر میں فاطمی، ایوبی اور ممالک کے ادوار حکومت میں قاہرہ میں کئی حلویات کے چرچے ہوئے۔ ان میں ایک کو ’قتائف‘ کہا گیا۔
مشہور مورخ جلال الدین السیوطی [1505ء] نے اپنی کتاب ’منھل اللطائف فی الکنافۃ والقطائف‘ تحریک کی جس سے ان دونوں اقسام کی حلویات کی اہمیت کا بھی پتا چلتا ہے۔
علامہ السیوطی نے ’مسالک الابصار‘ کے مصنف ابن فضل اللہ العمری سے نقل کیا ہے کہ ماہ صیام میں حضرت معاویہ کو شدید بھوک لگتی۔ انہوں نے اپنے طبیب محمد بن آثال سے اس کی شکایت کی۔ طبیب نے انہیں سحری میں ’الکنافۃ‘ کھانے کی تجویز دی۔ تاہم اس روایت پر کافی تنقید کی گئی۔ متاخرین علماء جن میں مصر کے سید کیلانی سرفہرست ہیں نے اس روایت کو من گھڑت قرار دیا۔
الکیلانی کا کہنا ہے کہ قدیم عربی اشعار میں کئی انواع کی سویٹس اور حلویات کے نام ملتےہیں مگر ’الکنافہ‘ بہت بعد میں سامنے آئی۔ البتہ اس کی جگہ القطایف پہلے بھی مشہور تھی۔
ابن رومی نے اپنےاپنی شاعری میں القطائف مصری ابو الحسن الجزار نے الکنافۃ کی تعریف میں اشعار لکھے ہیں۔